بائیو این ٹیک کے شریک بانی نے کہا ہے کہ 'قوی امکان' یہ ہے کہ ان کی تیار کردہ ویکسین کورونا وائرس کی نئی قسم کے خلاف موثر ہوگی، تاہم اگر ضروری ہوا تو وہ 6 ہفتوں میں ویکسین کو اس کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ بائیو این ٹیک اور فائزر نے مشترکہ طور پر کورونا ویکسین تیار کی تھی جسے دنیا میں سب سے پہلے استعمال کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔

اب برطانیہ میں کورونا کی نئی قسم کو شناخیت کیا ہے اور اس حوالے سے بائیو این ٹیک کے شریک بانی اوغور شاہین نے کہا 'سائنسی طور پر زیادہ امکان یہی ہے کہ ویکسین کا مدافعتی ردعمل اس نئی قسم کے خلاف بھی کارآمد ہوگا'۔

انہوں نے مزید کہا 'میسنجر ٹیکنالوجی کی خوبی یہی ہے کہ ہم اس میں براہ راست ایسی تبدیلیاں کرسکتے ہیں جو نئی میوٹیشن کی مکمل نقل کرسکے، یعنی ہم تیکنیکی طور پر نئی ویکسین 6 ہفتوں میں فراہم کرسکتے ہیں'۔

اوغور شاہین نے کہا کہ برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم میں 9 جینیاتی میوٹیشن کو دیکھا گیا ہے، جبکہ عام طور پر ایک میوٹیشن ہی ہوتی ہے۔

انہوں نے فائزر کے ساتھ مل کر تیار کی جانے والی ویکسین کی افادیت پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے کہا 'یہ ایک ہزار سے زائد امینو ایسڈز سے لیس ہے، جن میں سے صرف 9 میں تبدیلی آئی ہے، یعنی 99 فیصد پروٹین اب بھی پہلے جیسے ہیں'،

انہوں نے مزید کہا کہ ویکسین کی اس قسم پر آزمائش جاری ہے اور نتائج 2 ہفتے میں سامنے آسکتے ہیں۔

اوغور شاہین — اے ایف پی فائل فوٹو
اوغور شاہین — اے ایف پی فائل فوٹو

ان کا کہنا تھا 'ہمیں اعتماد ہے کہ ویکسین تحفظ فراہم کرے گی، مگر اس کی تصدیق تجربے کے بعد ہوگی، ہم ہر ممکن حد تک جلد ڈیٹا کو شائع کریں گے'۔

وائرس کی نئی قسم

عالمی ادارہ صحت نے ہفتے کی شب ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ کورونا کی نئی قسم کے حوالے سے برطانوی حکام سے رابطے میں ہیں اور وعدہ کیا کہ جلد حکومتوں اور عوام کو اس حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔

وائرس کی یہ نئی قسم جنوب مشرقی برطانیہ میں ستمبر میں سامنے آئی تھی اور جب سے اس خطے میں پھیل رہی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی ماہر ماریہ واک کرکوف نے بتایا 'ہم جہاں تک سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ اس قسم نے پھیلاؤ کی صلاحیت کو بہتر بنایا ہے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ سمھنے کے لیے تحقیقات جاری ہے کہ یہ کتنی تیزی سے پھیل سکتا ہے اور کیا یہ اس قسم سے متعلق ہے یا دیگر عناصر کا مجموعہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قم ڈنمارک، نیدرلینڈز اور آسٹریلیا میں بھی سامنے آئی ہے، مگر وہاں کیسز زیادہ تیزی سے پھیلے نہیں۔

انہوں نے کہا 'وائرس جہاں تک پھیلے گا، اتنا ہی اس میں تبدیلیوں کے مواقع آئیں گے، تو ہمیں اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے'۔

وائرسز میں مسلسل تبدیلیاں آتی ہیں اور سائنسدانوں نے نئے کورونا وائرس میں ہی متعدد تبدیلیوں کو وبا کے آغاز کے بعد سے دریافت کیا ہے۔

ان میں بیشتر تبدیلیوں سے وائرس کے افعال پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے یعنی اس کے آسانی سے پھیلنے یا سنگین علامات وغیرہ۔

تبصرے (0) بند ہیں