سلیم مانڈوی والا سینیٹ کو ذاتی فوائد کیلئے استعمال نہیں کر سکتے، شہزاد اکبر

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2020
وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اسلام آباد میں پریس کانفرس سے خطاب کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اسلام آباد میں پریس کانفرس سے خطاب کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ سلیم مانڈوی والا سینیٹ کو اپنے ذاتی فوائد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے، اگر آپ پر کوئی مقدمہ بنتا ہے تو آپ مقدس گائے نہیں ہیں، آپ اداروں کو دھمکا اور بدنام کر رہے ہیں جو ایک رکن پارلیمنٹ کے شایان شان نہیں ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ نہیں ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) سارے کام ٹھیک کرتا ہے، نیب کا کوئی حکم غلط ہوتا ہے تو اسے عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے لیکن آپ سینیٹ کو اپنے ذاتی فوائد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے، آپ اداروں کو دھمکا اور بدنام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایک فرد کے احتساب کا سامنا کرنے سے سی پیک کو کچھ نہیں ہوگا، مریم نواز

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے قیام سے تین چار ماہ پہلے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے بچنے اور دوبارہ وائٹ لسٹ میں آنے کے لیے کچھ قانون سازی کرنی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف چاہتا ہے کہ آپ کے نظام میں احتساب اور شفافیت ہو، جو بھی مالیاتی ٹرانزیکشنز ہو رہی ہیں اور جو بھی قانونی معاملات ہیں ان میں شفافیت ہونی چاہیے اور اگر کوئی منی لانڈرنگ کرتا ہے تو احتساب ہو۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں زیر التوا قانون سازی پارلیمان سے کرنی تھی اور اس کے لیے ہمیں خصوصاً سینیٹ میں اپوزیشن کا ساتھ چاہیے تھا لیکن جب اپوزیشن سے بات شروع ہوئی تو انہوں نے ایف اے ٹی ایف کے قوانین پر ہم سے صرف ایک ڈیمانڈ کی جو مسودے کی صورت میں بالمشافہ پیش کی گئی اور وہ یہ ہے جس کو وزیر اعظم این آر او پلس پلس کہہ چکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مسودے میں ایک ایک چیز ان 11 جماعتوں میں شامل لوگوں نے ہی بنائی، دو تین سرخیل مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) نے یہ مسودہ بنایا اور کسی دن یہ بھی بتاؤں گا کہ اس مسودے میں کون کونسی مالدار پارٹیاں بھی ملوث تھیں جن کا اس سے فائدہ ہونا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی بیٹی، داماد اور بیٹا اشتہاری قرار

وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ اس میں نیب آرڈیننس میں 34 ترامیم تجویز کی گئی ہیں، اپوزیشن کا کہنا تھا کہ آپ یہ ترامیم ہمیں نیب میں کر کے دیں گے تو ہم آپ کو ووٹ بھی دیں گے، ساتھ بھی چلیں گے لیکن اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان سے ان تمام ترامیم پر شق وار بحث کی، تین چار دن سیشنز ہوئے، ایف اے ٹی ایف کی ٹیم بھی بیٹھی ہوئی تھی اور ہم نے کہا کہ آپ نیب کے ان قوانین میں بھی ترمیم کر سکتے ہیں جو ایف اے ٹی ایف کی ڈیمانڈ سے نہ ٹکرا رہے ہوں۔

مشیر برائے احتساب نے کہا کہ یہ بات گھڑی جاتی ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم ہونی چاہیے، قانون میں کوئی بھی ترامیم کی جا سکتی ہے لیکن ترامیم وہ کی جائیں جس کا فائدہ اصولی بنیادوں پر سب کو ہو لیکن یہاں مسئلہ کچھ اور ہے، جن لوگوں نے یہ ڈرافٹ کیں وہ تمام نیب کے ملزمان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان 34 ترامیم میں کہا گیا کہ نیب کے قوانین پر عملدرآمد 1985 سے نہیں بلکہ 1999 سے کیا جائے، میرا دعویٰ ہے کہ 1985 کے بعد یہ سب لوگ جو سیاست میں آئے، ان کے اثاثے دیکھ لیں اور 1999 میں دیکھ لیں، یہ چاہتے ہیں کہ 85 سے 99 تک جو کمایا ہے اسے حلال کردیں اور ان پر غیرقانونی اثاثہ جات بنانے کے جتنے بھی کیسز ہیں اس پر انہیں معافی دے دی ہے، تو بھائی یہ این آر او نہیں تو کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری شق یہ ہے کہ نیب میں ایک ارب سے نیچے کے کرپشن کو جرم تصور نہ کیا جائے، اس سے نیچے کام ایف بی آر یا کسی چھوٹے محکمے کو بھیج دیں تو رمضان شوگر ملز، رانا ثنااللہ کے اثاثے، جاوید لطیف، خواجہ آصف سمیت وہ تمام لوگ ہیں جو اس شق سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: نیب نے فضل الرحمٰن کے مزید 5 ساتھیوں کو طلب کرلیا

شہزاد اکبر نے کہا کہ سب سے بڑی ڈیمانڈ ناصرف اس میں کی گئی بلکہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ میں کی گئی اور وہ یہ تھی کہ منی لانڈرنگ نیب کے جرم کے طور پر ختم کردیا جائے، سرکاری عہدے کے حامل فرد کے لیے منی لانڈرنگ کو دیکھنے والا واحد ادارہ نیب ہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس مسودے پر دستخط کر دیتے تو یہ فوری این آر او تھا، شہباز شریف کا ٹی ٹی کیس ختم، آصف علی زرداری کے جعلی اکاؤنٹس کے تمام کیسز ختم، چوہدری شوگر ملز کا کیس ختم، خواجہ آصف کا اثاثوں کا کیس ختم، فریال تالپور کے کیسز ختم ہو جاتے اور یہ تمام لوگ اس مسودے سے براہ راست فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے کہا کہ بے نامی کی بھی تعریف کی جائے اور آپ کے 18 سال سے بڑے بچے اور اگر بیوی آزادانہ ٹیکس ادا کرتی ہے تو انہیں بے نامی میں شامل نہ کیا جائے، یہ ایک عجیب و غریب ڈیمانڈ ہے کیونکہ اگر ایک ٹیکس ادا کرنے والے کے نام میں اپنی رشوت کی چیزیں کراتا جاؤں تو کیا وہ بے نامی تصور نہیں ہو گا۔

وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ پاکستان کے کسی فوجداری قانون میں وقت کی حد نہیں ہے، آپ پانچ سال پہلے کی بھی چیز تفتیش کر سکتے ہیں اور جب آپ کے علم میں آئے تو 10 سال سے 50 سال تک کی چیز بھی تفتیش کر سکتے ہیں، ان کی تجویز یہ تھی آپ اس کو پانچ سال تک محدود کر دیں کہ آپ پانچ سال سے پیچھے نہیں جا سکتے تو آصف علی زرداری اور گیلانی صاحب کے پانچ سالہ دور کو یہ پکا این آر او تھا اور نواز شریف کے بھی دو ڈھائی سال کو کلین چٹ مل جاتی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کے معاملے پر اجلاس کیلئے اپوزیشن کی سینیٹ میں ریکوزیشن، قراردادیں بھی جمع

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ نیب کے 12 جرائم میں سے 5 جرائم کو نیب کے جرائم کی فہرست سے ہٹا دیں، اس سے براہ راست فائدہ اٹھانے والوں میں شہباز شریف، نواز شریف، مریم نواز، احسن اقبال، خواجہ آصف، شاہد خاقان، خورشید شاہ اور جاوید لطیف شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک شق یہ تھی کہ نااہلی کی مدت بھی 5 سال کردی جائے اور نیب سے بین الاقوامی قانونی معاونت ختم کردی جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نیب کے جرائم میں باہر سے کوئی ثبوت نہ منگوا سکیں، یعنی لندن کے ثبوت منگوا کر آپ عدالت میں پیش نہیں کر سکتے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ ان میں سے کوئی بھی شق پاکستان تحریک انصاف، وزیر اعظم عمران خان یا ان کی ٹیم کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں تھی، انہوں نے بارگین کرنے کی بڑی کوشش کی جو نہیں ہو سکی، ان کو صاف انکار کردیا گیا جس کے بعد اپنی خفت چھپانے کے لیے پی ڈی ایم کا دھرا بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ایوان بالا کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا سینیٹ میں ریکوزیشن کے لیے قرارداد پیش کر چکے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ چیئرمین نیب کو طلب کریں گے اور کمیٹی کے سامنے لائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اصول کی بات یہ ہے کہ میں اپنا دفتر اپنے ذاتی فوائد کے لیے استعمال نہیں کر سکتا، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کہہ رہے ہیں کہ ہم نیب کو بین الاقوامی سطح پر بلیک لسٹ کرائیں گے تو میں ان کو یاددہانی کرا دینا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ایک امانت ہے، یہ ہمارے ملک میں خصوصاً سینیٹ انتخابات میں بڑا مسئلہ ہے کہ پیسے والے لوگ آ جاتے ہیں، اب آپ آ گئے ہیں تو آپ یہاں قانون سازی کرنے کے لیے آئے ہیں، آپ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے نہیں آئے۔

مزید پڑھیں: نیب رپورٹ میں سلیم مانڈوی والا کے خلاف الزامات کی توثیق

انہوں نے ڈپٹی چیئرمین نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ پر کوئی مقدمہ بنتا ہے تو آپ مقدس گائے نہیں ہیں، مافیاز کو تحفظ حاصل نہیں ہے اور آپ اپنے دفتر کو اس کے دفاع کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ نہیں ہے کہ نیب سارے کام ٹھیک کرتا ہے، نیب کا کوئی حکم غلط ہوتا ہے تو اسے عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے لیکن آپ سینیٹ کو اپنے ذاتی فوائد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے، آپ اداروں کو دھمکا اور بدنام کر رہے ہیں ، یہ ایک پارلیمان کے رکن کے شایان شان نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام اداروں کو آزادانہ طریقے سے کام کرنا چاہیے اور ان کو قانون میں جو تحفظ حاصل ہے وہ ملنا چاہیے، کسی بھی شخص نے اگر اسے استعمال کرنے کی کوشش کی تو اس کی اجازت نہیں ملے گی۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ این آر او مانگنے کی کوشش تو بار بار ہو چکی ہے، 2007 میں جس این آر او کو سپریم کورٹ نے کالعدم قررا دیا جو اس کی دوسری کوشش تھی اور اس کے کچھ خالق وہ تھے جنہوں نے وہ والا بھی ڈرافٹ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نیب راولپنڈی فوج کا نام لے کر ادارے کی توہین کررہا ہے، سلیم مانڈوی والا

ان کا کہنا تھا کہ بنی گالا میں صرف وزیر اعظم کا گھر نہیں بنا ہوا بلکہ بہت سارے گھروں کی تعمیرات ہوئی ہیں، جب ان کے گھر کی تعمیر ہوئی تو ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا، مجاز اتھارٹی سی ڈی اے کا بورڈ ہے جو ماسٹر پلان پر نظرثانی کرسکتا ہے اور اسی میں ایف-9 پارک کو ریگولرائز کیا گیا کیونکہ ایک اسٹرکچر پہلے بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے آپ کو ہممیشہ احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس ریگولرائزیشن میں وزیر اعظم کو کوئی ناجائز فائدہ ملا ہے تو آپ کے لیے عدالت کا فورم پیش ہے، آپ عدالت میں لے آئیے کیونکہ عدالتوں پر سب کو اعتبار ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں