ڈینیئل پرل کیس: امریکا کو ملزمان کی رہائی کے عدالتی فیصلے پر ’شدید تشویش‘

اپ ڈیٹ 25 دسمبر 2020
ڈینیئل پرل کو سال 2002 میں قتل کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان
ڈینیئل پرل کو سال 2002 میں قتل کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ڈینیئل پرل اغوا اور قتل کیس کے 4 ملزمان کی حراست کو کالعدم قرار دینے اور انہیں فوری رہا کرنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کردیا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ اسے 24 دسمبر کے سندھ ہائی کورٹ کے ’ڈینیئل پرل کے قتل کے ذمہ دار متعدد دہشت گردوں‘ کو رہا کرنے کے فیصلے پر ’شدید تشویش‘ ہے۔

ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ ’ہمیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس وقت تک ملزمان کو رہا نہیں کیا گیا‘۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ محکمہ اس کیس میں ہونے والی کسی بھی پیش رفت کی مسلسل نگرانی کرے گا اور ڈینیئل پرل کی بطور صحافی میراث کا احترام کرتے ہوئے ’اس انتہائی مشکل عمل کے دوران‘ ان کے اہل خانہ کی مکمل حمایت جاری رکھے گا۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: بری ہونے والے ملزمان کی نظر بندی کالعدم قرار، رہائی کا حکم

واضح رہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب ایک روز قبل سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیئل پرل اغوا اور قتل کیس میں بریت کے باوجود ملزمان کو حراست میں رکھنے کے سندھ حکومت کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے مذکورہ کیس میں 8 ماہ قبل کالعدم قرار دی گئی ٹرائل کورٹ کی سزاؤں کے باجود ملزمان کو حراست میں رکھے جانے کے خلاف درخواست پر سماعت میں یہ فیصلہ دیا تھا۔

سندھ ہائیکورٹ نے وفاقی و صوبائی حکام کو عدالت سے پیشگی اطلاع کے بغیر ان افراد کی کسی قسم کی حفاظتی حراست سے بھی روک دیا تھا تاہم ان چاروں ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا کہتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ جب عدالت طلب کرے گی یہ ملزمان پیش ہوں گے۔

خیال رہے کہ رواں برس اپریل میں سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ مرکزی ملزم عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

تاہم رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا جس میں ملزمان کی رہائی سے نقصِ امن کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

چنانچہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے انہیں 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید توسیع ہوتی رہی تھی۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کی رہائی کے حکم کے خلاف حکومت سندھ اور صحافی کے اہلِ خانہ کی جانب سے دائر درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے ملزمان 3 ماہ کیلئے زیرحراست

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں