دفتر خارجہ نے پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کی رپورٹس مسترد کردیں

اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2020
زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان میں جبری تبدیلی کا کوئی ادارہ جاتی وجود نہیں ہے— تصویر: دفتر خارجہ ٹوئٹر
زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان میں جبری تبدیلی کا کوئی ادارہ جاتی وجود نہیں ہے— تصویر: دفتر خارجہ ٹوئٹر

دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان میں جبری تبدیلی کا کوئی ادارہ جاتی وجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر رپورٹ شدہ الزامات کی جب تحقیقات کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ وہ یا تو فکشن اور سیاسی بنیادوں پر عالمی برادری میں پھیلائے گئے یا بین الاقوامی برادری میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے بدنیتی پر پر مبنی تھے۔

اس سلسلے میں ترجمان دفتر خارجہ نے برسلز کی ای یو ڈس انفو لیب کی تحقیقات کی مثال دی جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ بھارتی پروپیگنڈا نیٹ ورک دہلی کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات رکھنے والی اقوام بالخصوص پاکستان کو بدنام کرنے میں ملوث ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مذہب کی جبری تبدیلی سے اقلیتوں کے تحفظ کیلئے پارلیمانی کمیٹی قائم

انہوں نے کہا کہ بعض افراد اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے جبری تبدیلی کے کچھ واقعات ہوئے ہیں لیکن اس میں کسی بھی ریاستی ادارے کی شمولیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

دفتر خارجہ کا بیان امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی اس رپورٹ کے ایک روز بعد سامنے آیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں ہر سال مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی ایک ہزار لڑکیوں کو جبری طور پر مسلمان کیا جاتا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ جب بھی اور جہاں بھی اس طرح کے واقعات کی اطلاع ملی تمام ریاستی اداروں نے ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کی ہے، جبکہ کچھ واقعات میں ریاست فوری اور مؤثر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے عدالت میں مجرموں کے خلاف مقدمات میں فریق بھی بنی۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے ساتھ ساتھ قانونی اور انتظامی فریم ورک اقلیتوں کو کسی بھی جبری تبدیلی سے بچانے کے لیے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: اقلیتی کمیشن نے جبری مذہبی تبدیلی کے خلاف قانون کا مسودہ تیار کرلیا

زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ 'پاکستان کی عدلیہ اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے بارے میں بہت چوکس اور واضح ہے، اس کے علاوہ ملکی آزاد میڈیا اور سول سوسائٹی کسی بھی اقلیتی برادری کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کے خلاف آزاد مانیٹرز کی حیثیت سے کام کر رہی ہے جس سے احتساب اور شفافیت کے کلچر کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقلیتی برادری کے تمام افراد پاکستان کے مساوی شہری ہیں اور اپنے مذہب کی تشہیر، تبلیغ اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے آزاد ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے معاشرے میں اقلیتوں نے بہت اہم کردار ادا کیے ہیں اور ہمیں ان پر فخر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کا ملک میں اقلیتوں کے تحفظ اور مساوی سلوک کے فریم ورک کو مستحکم کرنے کا وژن ان کے بیانات اور عہدہ سنبھالنے کے بعد قوم سے کیے گئے پہلے خطاب میں جھلکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جبری مذہب تبدیلی کی وضاحت اسلامی نظریاتی کونسل کرے گا، پارلیمانی کمیٹی

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم بین الاقوامی سطح پر بھی آزادی مذہب کے معاملے پر اپنے واضح مؤقف کی وجہ سے قائدانہ کردار حاصل کر چکے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ اقلیتوں کے لیے قومی کمیشن بھی قائم کیا گیا ہے جو مکمل طور پر فعال اور آزاد ہے، مزید یہ کہ بین المذاہب ہم آہنگی کی قومی پالیسی اپنانے کے آخری مراحل میں ہے۔

زاہد حفیظ چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے قانونی، انتظامی اور پالیسی اقدامات جاری رکھے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست کی بنیادیں بانی قائد اعظم کے وضع کردہ اصولوں پر رکھی گئی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں