غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، وزیرمذہبی امور

اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2020
وفاقی وزیر مذہبی امور پیرنورالحق قادری—فائل فوٹو: اے پی پی
وفاقی وزیر مذہبی امور پیرنورالحق قادری—فائل فوٹو: اے پی پی

وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا ہے کہ غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

اپنے ایک بیان میں وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ آئینِ پاکستان بھی غیر مسلم آبادی اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔

واضح رہے کہ وفاقی وزیر کا یہ بیان گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے علاقے کرک میں ہجوم کی جانب سے ایک ہندو بزرگ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو نذرآتش کیے جانے کے بعد سامنے آیا، مذکورہ واقعے پر چیف جسٹس پاکستان بھی نوٹس لے چکے ہیں اور 5 جنوری کو معاملے پر سماعت ہوگی۔

پیر نورالحق قادری کا کہنا تھا کہ غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کرک میں کچھ لوگ ایک مندر کو گرانے کی سازش کر رہے ہیں، جس کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی، اسلام اور آئینِ پاکستان غیر مسلم اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی کی اجازت دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا ہندو بزرگ کی سمادھی نذرآتش کرنے کا نوٹس

کرک میں پیش آئے واقعے پر انہوں نے کہا کہ مذکورہ معاملے کے پرامن حل کے لیے وزارت مذہبی امور علاقے کے مذہبی رہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور، وزیر زادہ، روی کمار، ایم پی اے، سابقہ ایم این اے مولانا شاہ عبد العزیز کے ذریعے معاملات کو حل کیا جا رہا ہے۔

نورالحق قادری کے مطابق کرک کی ہندو کمیٹی کی جانب سے مندر سے ملحقہ جگہ خرید کر توسیع کرنے پر مقامی آبادی مشتعل ہوئی تھی۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ مذکورہ واقعے میں ملوث افراد کو کرک انتظامیہ گرفتار کررہی ہے، ساتھ ہی انہوں نے مقامی ہندوؤں سے بھی پرامن رہنے کی اپیل کی۔

اپنے بیان میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی کو بھی اقلیتوں کے مقدس مقامات اور عبادت گاہیں گرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ساتھ ہی انہوں نے مذکورہ واقعے کو پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی سازش قرار دیا۔

خیال رہے کہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں 30 دسمبر کو ایک ہجوم نے ٹیری کے علاقے میں ہندو بزرگ کی سمادھی کو نذرآتش کردیا تھا جبکہ اس کے کچھ حصوں کو منہدم بھی کیا تھا۔

سمادھی کو نقصان پہنچانے کا واقعہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے ہندو برادری کے اراکین کو مذکورہ جگہ کی تزئین و آرائش کی اجازت ملنے کے بعد پیش آیا تھا۔

پولیس اور مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ سمادھی پر حملے سے قبل ٹیری کے شنکی اڈہ کے مقام پر مذہبی رہنماؤں کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: مشتعل ہجوم کی ہندو بزرگ کی سمادھی میں توڑ پھوڑ، نذرآتش کردیا

عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ ہجوم کی قیادت ایک مذہبی جماعت کے حمایتوں اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے کی جارہی تھی۔

مشتعل ہجوم کے افراد یہ نعرے لگا رہے تھے کہ وہ علاقے میں کسی مزار کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گے۔

خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو ہندو کمیونٹی کی جانب سے مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندو مذہب کو ماننے والے خاص طور پر سندھ سے لوگ یہاں آتے تھے۔

خیال رہے کہ شری پرم منہس جی مہاراج کی سمادھی کے معاملے پر دہائیوں قبل تنازع شروع ہوا تھا، 1997 میں اس جگہ کو مسمار کردیا گیا تھا تاہم 2015 میں سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو ہندو سمادھی کو بحال کرنے اور دوبارہ تعمیر کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں