جبری لاپتا افراد میں سے 3 ہزار 800 کا سراغ لگا لیا، انکوائری کمیشن

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2021
کمیشن نے کہا کہ لاپتہ افراد سے متعلق اب تک 6 ہزار 921 کیسز سامنے آچکے ہیں — فائل فوٹو
کمیشن نے کہا کہ لاپتہ افراد سے متعلق اب تک 6 ہزار 921 کیسز سامنے آچکے ہیں — فائل فوٹو

جبری گمشدگیوں کے حوالے سے انکوائری کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک میں جبری طور پر لاپتا کیے جانے والے افراد میں سے 3 ہزار 796 کا سراغ لگایا جاچکا ہے۔

انکوائری کمیشن کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں لاپتا افراد سے متعلق اب تک 6 ہزار 921 کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں سے 2 ہزار 184 افراد واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے، 857 افراد کو نظر بند کردیا گیا جبکہ 535 کو جیلوں میں قید کردیا گیا۔

جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ان افراد میں سے 220 کی لاشیں برآمد ہوئیں جبکہ 3 ہزار 796 افراد کا سراغ لگا لیا گیا۔

صوبوں کے حوالے سے بات کی جائے تو جبری لاپتا ہونے کے سب سے زیادہ واقعات خیبر پختونخوا میں پیش آئے جہاں 2 ہزار 942 افراد لاپتا ہوئے، جن میں سے 59 کی بعد ازاں لاشیں برآمد ہوئیں جبکہ ایک ہزار 335 کا سراغ لگا لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کیلئے مسودہ تیار’

صوبہ سندھ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر رہا جہاں ایک ہزار 643 افراد لاپتا ہوئے جن میں سے 55 مردہ حالت میں پائے گئے۔

پنجاب میں ایک ہزار 432 افراد لاپتا ہوئے جن میں سے 66 کی لاشیں ملیں۔

جبری گمشدگیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ بدنام بلوچستان میں 537 کیسز سامنے آئے جن میں سے 222 کا سراغ لگا لیا گیا، جبکہ 30 افراد مردہ حالت میں پائے گئے۔

اسی طرح اسلام آباد سے 300، آزاد جموں و کشمیر سے 58 اور گلگت بلتستان سے 9 افراد جبری طور پر لاپتہ ہوئے۔

لاپتا افراد کا معاملہ کیا ہے؟

واضح رہے کہ پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کا معاملہ بہت سنگین ہے، ان افراد کے اہلِ خانہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے عزیزوں کو جبری طور پر سیکیورٹی ادارے لے جاتے ہیں اور پھر انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی متعدد مرتبہ اس معاملے پر آواز اٹھاتی اور لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: ہمارے دل ہر لاپتہ شخص کے اہلِ خانہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں، آصف غفور

اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر وزارت داخلہ نے 2011 میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں 2 رکنی کمیشن قائم کیا تھا جس کے دوسرے رکن انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا ہیں۔

جنوری 2019 میں حکومت کی جانب سے ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا، جس کے تحت جو افراد، شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے ان پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی پی) کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کسی فرد یا تنظیم کی جانب سے جبری طور پر کسی کو لاپتا کرنے کی کوئی بھی کوشش کو جرم قرار دینے کے لیے پی پی سی میں ترمیم کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ جولائی 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے جبری گمشدگی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ نامعلوم مقامات سے شہریوں کی گمشدگی اور اغوا میں ملوث شخص پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں