72 گھنٹے میں مقدمہ درج کرنے کی حرکت کی تو آپ کی وزارت نہیں رہے گی، فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2021
مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کی—اسکرین شاٹ
مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کی—اسکرین شاٹ

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہم مذاکرات پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں لیکن مذاکرات کس سے کریں جعلی حکومت سے جو عوام کی نمائندہ نہیں ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کے 72 گھنٹے میں مقدمہ درج کرنے کی بات پر ردعمل میں کہا کہ میرے خیال میں آپ نے یہ حرکت کی تو آپ کی وزارت نہیں رہے گی۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کے دوران حکومت اور وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جس جذبے سے ہم لڑ رہے ہیں اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ تم ووٹ چوری کرکے آئے ہو اور ہم کھل کر آپ کی حکومت کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں، ہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی ہے ہم حسینی ہیں اور تم یزیدی ہو‘۔

نواز شریف کے پاسپورٹ منسوخی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ ’طبی بنیادوں پر یہاں سے گئے ہیں، پہلے بھی پاسپورٹ منسوخ ہوئے ہیں، آپ نواز شریف کا سوال نہیں کریں بلکہ یہ پوچھیں کہ پرویز مشرف اشتہاری ہے اس کے بارے میں کیا کیا، یہ دو لائنیں جو ہیں آپ کی کہ 3 دفعہ ملک کا وزیراعظم رہنے والے کے ساتھ یہ رویہ جبکہ دوسرا عدالت کے ہاتھوں بغاوت کے جرم میں سزایافتہ اور اشتہاری کے بارے میں دوسرا رویہ، اس طرح ملک نہیں چلا کرتے، قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے‘۔

مزید پڑھیں: جو بھی فوج کےخلاف بات کرے گا، 72 گھنٹے میں اس پر پرچہ کٹے گا، وزیر داخلہ

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کہا جارہا کہ کسی نے فوج کے خلاف بات کی تو 72 گھنٹوں میں مقدمہ دائر کردیا جائے گا، 72 گھنٹے میں آپ مقدمہ دائر نہیں کریں گے بلکہ میرا خیال ہے آپ نے یہ حرکت کی تو 72 گھنٹے بعد آپ کی وزارت نہیں رہے گی، یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

خیال رہے کہ شیخ رشید احمد نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’جب تک میں وزیر داخلہ ہوں کوئی بھی فوج کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرے گا تو 72 گھنٹے میں اس کے خلاف پرچہ دوں گا'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’ہم فوج کے احترام اور تقدس میں کوئی فرق نہیں لانا چاہتے، ہم پورے جنرلز کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر فوج سیاست میں مداخلت کرے گی تو ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہیں گے کہ تم اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہو‘۔

اس موقع پر انصار الاسلام سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ یہ ان کی بوکھلاہٹ اور خوف کی علامت ہیں کہ ایک نہتی تنظیم جو رضا کار ہیں اور ماضی میں یہ ان کی تعریفیں کر چکے ہیں لیکن آج انہیں اس پر پابندی کی بات کے اور کچھ نہیں مل رہا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام ایک رجسٹرڈ جماعت ہے اور ہر تنظیم کی ایک رضاکار تنظیم ہوا کرتی ہے لیکن اگر آپ کو ایک پارٹی کو نیچا دکھانے کے لیے کچھ نہیں مل رہا تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کہ ہم اعلان جنگ کرچکے ہیں، تم نے کیا اعلان جنگ کرنا ہے ہمارے خلاف، آپ کا قانون بے بس ہوجائے گا میں اس کا قانون کا احترام کروں گا جو مجھے تحفظ فراہم کرے گا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ جو قانون میرے جمہوری، آئینی اور قانونی حق سلب کرنے کے لیے استعمال ہوگا مجھ پر اس قانون کا احترام لازمی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہم اسٹیبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو دھاندلی کا مجرم سمجھتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن

اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 21 جنوری کو ہم کراچی میں اسرائیل نامنظور ریلی کر رہے ہیں، ہم نے پی ڈی ایم کو اس کی دعوت دی ہے اور پی ڈی ایم نے اس دعوت کو قبول کیا ہے اور سب سے بہترین انداز میں شیری رحمٰن نے اس دعوت کو قبول کیا۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کشمیریوں کے ساتھ اپنی روایت کے مطابق یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کیا ہے جبکہ کشمیر فروشوں کے خلاف ایک یکجہتی ہوگی، جنہوں نے کشمیر کو بیچا ہے ان کے خلاف ایک دن منایا جائے گا اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی ہوگی، یہ آج بھارت کی طرف ہیں تب بھی مظلوم ہیں اور پاکستان کی طرف بھی مظلوم ہیں، ان کی آواز کو ہرجگہ دبایا جارہا ہے۔

اپنی گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کے دروازے دنیا میں بند نہیں ہوتے، اصولاً ہم وہی لوگ ہیں جو مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہم مذاکرات کس سے کریں، جعلی حکومت سے کریں جو عوام کی نمائندہ نہیں ہے جو ووٹ چوری کرکے آئی ہے، جب عمران خان استعفیٰ دے دیں گے اور نئے انتخابات کا اعلان کردیں گے کہ تو یہ سامنے آجائے گا ۔

تبصرے (0) بند ہیں