ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کی برسی، ایران اور اسرائیل کے مابین لفظی جنگ

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2021
اسرائیلی عہدیدار نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان کو مسترد کردیا—فوٹو: رائٹرز
اسرائیلی عہدیدار نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان کو مسترد کردیا—فوٹو: رائٹرز

عراق کے شہریوں نے امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہونے والے ایرانی پاسدارن انقلاب کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی پہلی برسی کے موقع پر امریکی فوجیوں کی بے دخلی کا مطالبہ کیا جبکہ ایرانی وزیر خارجہ کے بیان پر اسرائیل کے حکام نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ 3 جنوری 2020 کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس ہلاک ہوگئے تھے۔

مزیدپڑھیں: قاسم سلیمانی کے بارے میں سی آئی اے کو معلومات فراہم کرنے والے کو پھانسی دیں گے، ایران

غیرملکی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق وسطی بغداد کے تحریر اسکوائر کی طرف جانے والی سڑکیں ہزاروں مظاہرین سے بھر گئیں۔

مظاہرین نے بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا اور قاتلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے حشد الشعبی کے سربراہ فلاح الفیاض نے قاسیم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے قاتلوں کے خلاف انتقامی کارروائی کے عزم کا اظہار کیا اور امریکی فوج سے عراق چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: عراق: امریکی فضائی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ ہلاک

مظاہرین میں شامل ایک شخص ابو احمد نے کہا کہ آج ہم یہاں امریکا اور اسرائیل کے ان حملوں کی مذمت کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جو انہوں نے ہمارے رہنماؤں پر کیے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے رہنماؤں کو ہلاک کرنے والوں کا احتساب کیا جائے۔

دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکی صدر ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ عراق میں امریکی افواج پر حملوں کی آڑ میں جنگ شروع کرنے کے اسرائیلی منصوبے 'ہوشیار' رہے۔

ایرانی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد ایک اسرائیلی عہدیدار نے اس الزام کو 'جھوٹ' قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور کہا کہ اسرائیل کو ایرانی حملوں کے لیے چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔

مزیدپڑھیں: ایرانی قدس فورس کے سربراہ کی ہلاکت: عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ

واضح رہے کہ امریکا، عراق میں امریکی تنصیبات پر راکٹ حملوں کا الزام ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا پر عائد کرتا ہے۔

ایران کے حمایت یافتہ کسی بھی گروپ نے راکٹ حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

خیال رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران اور امریکا کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ شکل اختیار کر گئے تھے جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے کے خاتمے اور ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مستقل انتہائی کشیدہ ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں