عالمی برادری کا کشمیریوں سے 5 جنوری کو کیا گیا وعدہ ایفا نہ ہوا، شاہ محمود

اپ ڈیٹ 05 جنوری 2021
شاہ محمود قریشی سینیٹ میں خطاب کر رہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
شاہ محمود قریشی سینیٹ میں خطاب کر رہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آج سرحد کے دونوں طرف موجود کشمیریوں کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ پاکستان آپ کی حق خودارادیت کا حصہ دار ہے جبکہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی جانب سے 5 جنوری کو کیا گیا وعدہ ایفا نہ ہوا۔

سینیٹ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری پارلیمنٹ عملی طور پر مظاہرہ کر چکی ہے کہ سو اختلافات کے باوجود مسئلہ کشمیر پر ہماری یک سوئی ہے، ہمارا نقطہ نظر ایک ہے اور ہماری منزل ایک ہے جس کا ثبوت پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی مشترکہ قراردادیں ہیں۔

مزید پڑھیں: دنیا بھر میں کشمیری آج یوم حق خودارادیت منا رہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ اس کشیدہ ماحول میں بھی مسئلہ کشمیر پر قوم یک زبان ہو کر بات کر رہی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ آج کے دن ایک متفقہ پیغام جانا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ 5 جنوری وہ دن ہے جب کشمیریوں کے ساتھ عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے ایک وعدہ کیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ وعدہ ایفا نہ ہوسکا۔

ان کا کہنا تھا کہ 72 سال سے لوگ منتظر ہیں کہ ان کی حق خودارادیت اور جستجو کی منزل کو پہنچیں لیکن آج ایک پیغام اس ایوان کی طرف سے جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وہ پیغام یہ ہے کہ ہمیں احساس ہے کہ کشمیری خاص طور پر وہ لوگ جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہیں وہ کرب میں زندگی گزار رہے ہیں، تکالیف برداشت کر رہے ہیں، کالے قوانین، مواصلاتی رابطے کی بندش، بنیادی حقوق صلب ہونے کے باوجود جہاں موقع ملتا ہے اپنی آواز بلند کرنے کی کاوش جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے اپنی کارروائیوں اور جبر سے اس علاقے کو دنیا کا سب سے بدترین فوجی علاقے بنایا ہے، 9 لاکھ سے زائد فوج وہاں تعینات کر کے ان پر جو ظلم برپا کیا ہے اس کے باوجود ان کے حوصلے نہیں ٹوٹے۔

'بھارت کشمیریوں کا عزم نہیں توڑ سکا'

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کی کوشش رہی ہے کہ اس جبر، لاک ڈاؤن اور فوجی گھیراؤ سے ان کے عزم توڑے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا، کشمیری آج جس قدر بھارتی حکومت سے نالاں ہیں ماضی میں کبھی نہیں تھے، اس کی وجہ دہلی میں آر ایس ایس-بی جے پی کی حکومت ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہلی میں ایسی سوچ اور ہندوتوا کا فلسفہ رائج کر رکھا ہے اس نے وہ کشمیری قائدین بھی جو ان کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل رہے تھے آج وہ بھی ان سے کنارہ کش ہیں اور دہلی سے منہ پھیر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری کشمیریوں کو حق خودارادیت کی فراہمی کیلئے اقدامات کرے، وزیر اعظم

ان کا کہنا تھا کہ سید علی گیلانی کی قربانی سے کون واقف نہیں ہے، کون نہیں جانتا کہ ان کا عزم و استقلال اور استقامت اتنی پختہ تھی اور آج بھی جبر اور جیل کے باوجود پختہ ہے، اس مجاہد کو عمران خان کی حکومت نے پاکستان کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا اور انہوں نے قبول کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آسیہ اندرابی اور ان کے شوہر طویل عرصے سے صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، ہم نے اقوام متحدہ اور جنیوا میں ان کے لیے آواز بلند کی ہے کیونکہ انہوں نے وہاں کی دختران ملت کے پلیٹ فارم سے خواتین کے حقوق اور انہیں جگانے کی کوشش کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی طرف سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے اس پار اور دوسری طرف موجود کشمیریوں کو پیغام جانا چاہیے کہ حق خودارادیت کی تحریک کے ہم حصہ دار ہیں، آپ پر پابندیاں ہیں، بین الاقوامی میڈیا کی رسائی نہیں ہے اور مبصرین کو جائزہ لینے کی اجازت بھارت نہیں دیتا، لیکن پاکستان آپ کی وکالت کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔

'امید ہے جو بائیڈن کشمیریوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائیں گے'

انہوں نے کہا کہ امریکا کے نومنتخب صدر جو بائیڈن خارجہ پالیسی کے معاملات پر تجربہ رکھتے ہیں اور اس خطے، اس کے معاملات اور کشمیر کے مسئلے سے واقف ہیں اور خوش آئند بات ہے کہ انہوں نے کشمیر میں انسانی حقوق کو جس بے دردی سے پامال کیا جا رہا ہے اس پر آواز اٹھائی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ انسانی پہلو پر بھی امریکا، جو بائیڈن اور یورپی یونین مؤثر آواز اٹھاتے ہیں تو کم از کم مقبوضہ کشمیر کے نہتے لوگوں میں امید کی ایک کرن جاگے گی۔

'کاش بھٹو کے جانشین مسئلہ کشمیر پر آنکھیں نہ چراتے'

ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے لیے آواز بلند کی اور پیپلز پارٹی کا سیاسی وجود وہی سے نکلا، بھٹو صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ کشمیر کی اہمیت اتنی ہے کہ اگر ایک ہزار سال جنگ لڑنی پڑے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں، کاش اس کے جانشین کشمیر سے اس طرح آنکھ نہ چراتے جس طرح آج انہوں نے چرایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر جماعتوں سے بالاتر ہو کر اتفاق تھا اور ہونا چاہیے اور اس کو برقرار رکھنے کے لیے بحیثیت وزیر خارجہ ان سب قائدین سے گزارش کی کہ آئیے، اس مسئلے ہماری رہنمائی فرمائیے اور اجلاس میں شامل ہوجائیں، سراج الحق، شیری رحمٰن، نوید قمر اور مسلم لیگ (ن) کے مشاہد حسین کو دعوت دی کہ آئیں بات کریں کیونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ ہمیں یک زباں ہو کر بات کرنی چاہیے۔

اپوزیشن پر نکتہ چینی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کاش وہ اپنی سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر مسئلہ کشمیر پر تھوڑا سا بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اور اس وقت جس سیاسی چھتری اور چادر کو اوڑھے رکھی ہے اس کے اندر رہتے ہوئے کشمیر کے لیے کوئی گنجائش پیدا کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام کو کشمیر کمیٹی کی ذمہ داری دی گئی اور کشمیر کی وکالت کا جتنا موقع انہیں ملا شاید اس ایوان میں کوئی ایسا منتخب رکن نہیں ہے جس کو اتنا طویل عرصہ ملا ہو جتنا مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت کو ملا، لیکن شاید وہ اس وقت اس پر اتنی توجہ نہیں دے سکے جتنی دینی چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کی اپوزیشن کی قیادت میں کچھ جذباتی لوگ ایسی گفتگو کرتے ہیں جس سے کشمیریوں میں مایوسی پھیلاتے ہیں اور یہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ان کے حوصلے کو چکنا چور کرتے ہیں، کشمیر کے مسئلے پر سیاسی دکان چمکانے کے لیے ایسا کرتے ہیں تو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں اپوزیشن کے تمام اراکین کو دعوت دے رہا ہوں کہ کشمیر کے مسئلے پر جب چاہیں دفترخارجہ کے دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں اور آپ کے خیالات اور تجاویز سے مستفید ہونا چاہیں گے اور جو مناسب ہوں گی اس کو پلکوں پر رکھیں گے، اس سے پہلے قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور بلاول بھٹو کو خط لکھا اور انہیں بریفنگ دینے کی پیش کش کی لیکن جواب نہیں آیا۔

پاکستان کو 5 اگست کے بعد مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے تھا، راجا ظفرالحق

لیڈر آف اپوزیشن راجا ظفرالحق نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں مختلف امور پر سیاسی جماعتوں، سیاست دانوں اور اداروں میں مکمل یک جہتی ہے تو وہ مسئلہ کشمیر ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، یہی پیغام کشمیریوں کو دلاتے رہے ہیں کہ پوری پاکستانی قوم یک زبان ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا یا کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے حالانکہ 22 یا 23 قراردادیں ہیں اور اس میں ریکارڈ ہے کس ملک نے ساتھ دیا اور یہ قراردادیں کثرت رائے سے منظور ہوئیں اور بھارت نے مخالفت بھی نہیں کی اس لیے اٹوٹ انگ کا مؤقف درست نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 257 میں کہا گیا ہے کہ اگر کشمیری یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ جائیں گے تو پھر آئین کے تحت وہ یہ فیصلہ بھی کریں گے کہ آیا وہ ایک صوبہ بناتے ہیں یا خود مختار حصہ بناتے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ کئی لوگ کشمیر پر بات کرتے ہوئے اس حوالے سے بات نہیں کرتے ہیں۔

چیئرمین مسلم لیگ (ن) نے وزیر خارجہ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا گیا اس کا کریڈٹ اپنے پاس رکھنے اور دوسروں کو دینے کا وقت نہیں آیا اور یہ کہنا ہم نے یہ کیا اور دیگر نے کچھ نہیں کیا قبل از وقت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ وزیرخارجہ سے گزارش کروں گا کہ اس مسئلے پر آپ کی ذمہ داری ہے، وزیراعظم، کابینہ، صدر مملکت اور اپوزیشن کی ذمہ داری ہے لیکن بات کرتے ہوئے اس منصب سے اتر کر اپنی مقامی سیاست میں استعمال کرنا شروع کریں گے تو ہماری بات پر کوئی وزن نہیں رہے گا۔

لیڈر آف اپوزیشن نے کہا کہ جس بات کو ہم کہتے ہیں یہ نہیں ہونا چاہیے اس سے خود بھی اجتناب کرنا چاہیے، اس سطح پر اتنا نہیں چاہیے کیونکہ اس سے ملک کے اندر اور باہر آپ کے اپنے الفاظ میں وقعت نہیں رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ کشمیری سینہ تان کر بھارت کا مقابلہ کر رہے ہیں، جو دلیری کشمیریوں نے دکھائی ہے، تاریخ میں فلسطینیوں کے علاوہ کسی نے شاید ایسی دلیری کھائی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دیگر ممالک میں آزادی کے جذبے کو زندہ رکھنے کے لیے کردار رہا ہے اور یہ ہماری پالیسی کا ایک پہلو ہے جس کو سراہنا چاہیے۔

راجا ظفرالحق نے کہا کہ ہماری کشمیریوں اور فلسیطینوں کے ساتھ بھی حمایت ہے، 1940 میں دو قراردادیں منظور ہوئی تھیں، ایک پاکستان اور دوسری قرارداد فلسطین کے لیے تھی جس کو وہاں سراہا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے 5 اگست کو ناجائز قدم اٹھایا وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کے خلاف ہے، کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیا، مزید فوج بھیجی، کشمیریوں کو اپنی زمین رکھنے کا حق تھا وہ بھی ختم کر دیا۔

مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو زیادہ مؤثر طریقے سے آواز اٹھانی چاہیے تھی، نقشہ بنانے پر کوئی ہرج نہیں ہے لیکن عملی طور پر اونچی آواز میں بات کرنے اور بیرون ممالک کے دورے کرنے کی ضرورت تھی۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کے بجائے باتیں کرتے کرتے نچلی سطح پر آجائیں اور ایک دوسرے پر طعنہ زنی کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں 5 فروری کو کشمیر سے یک جہتی کا مظاہرہ کیا گیا جس میں سیاسی کارکن، وکلا اور عام لوگ تھے تو ہمیں راولپنڈی میں پولیس کا سامنا ہوا تو ہم پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور ہمارے خلاف پرچے کاٹے گئے۔

راجا ظفرالحق نے کہا کہ ایسے دور بھی آئے کہ 5 فروری کو کشمیر کے حق میں بات کرنے پر لاٹھیاں بھی برسائی گئیں اور اس کارکردگی پر وہاں جو ایس ایس پی تھا اس کو بعد میں ڈی آئی جی بنا دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ مراحل آتے رہتے ہیں لیکن ہمیں اپنے مقصد کو بالکل سامنے رکھنا چاہیے اور اپنی منزل کو دھندلا نہیں کرنا چاہیے اور قومی سطح پر اصولی باتیں کریں اور دل آزاری کی باتیں نہیں کریں۔

آج کشمیر کی قرارداد کا دن ہے، شیری رحمٰن

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رہنما شیری رحمٰن نے کہا کہ آج کشمیر کی قرارداد کا دن ہے اور اس ایوان نے ہمیشہ کشمیری بہن بھائیوں کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ ان کی نمائندگی بھی کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دن اقوام متحدہ اور عالمی برادری کا کشمیریوں سے وعدے کا دن ہے جو آج بھارت کی بربریت کا سامنا کر رہے ہیں اور بھارت میں ایک نئی فاشسٹ حکومت کا دور ہے، انہوں نے پھولوں کی وادی کو مقتل میں تبدیل کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کرنے والی عالمی برادری سے مطالبہ ہے کہ آج وہ کہاں ہیں اور انہیں یاد دلانے کا دن ہے کہ کس طرح انہوں نے اس معاملے کر بھلا دیا ہے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ بھارتی فورسز کشمیر میں نوجوانوں پر پیلٹ گنز اور فائرنگ کرکے ظلم ڈھا رہی ہیں اور اس معاملے کی رپورٹ اقوام متحدہ میں جمع کروائی جا چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 5 اگست کے بعد کشمیری قیادت کو گرفتار کیا گیا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہیں اور فروری میں ڈومیسائل کا قانون تبدیل کرکے استحصال کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا سمیت دوسرے ممالک کے مبصرین کو کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔

رہنما پیپلزپارٹی نے کہا کہ آج ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ ہے اور انہوں نے کشمیر کا مقدمہ جس طرح لڑا اس پر پاکستانیوں کو فخر ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج عالمی برادری خاموش ہے، ہمیں امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے وعدوں کو پاس کریں گے اور امریکی نومنتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمالا ہیرس اپنے مؤقف کے مطابق کشمیر کے عوام کے مفاد میں اس طرف توجہ دیں گے۔

کشمیر کا مسئلہ اس نہج پر پہنچا کیسے، مولانا عبدالغفور حیدری

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ قرارداد پر سال میں کم از کم ایک دفعہ بحث ہونی چاہیے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اس نہج پر پہنچا کیسے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بھارت ایسا کرنے کی جرات کر سکتا ہے لیکن مودی نے اپنا انتخابی منشور جاری کیا تو اس نے اپنی بات واضح کی کہ ہماری حکومت منتخب ہو کر آئے گی تو کشمیر کو بھارت میں ضم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ مودی نے یہ اعلان انتخابات سے بہت پہلے کی تھی لیکن ہمارے حکمرانوں نے کیا کیا پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وزیراعظم واپس آئے تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی خوش تھے کہ وزیراعظم کا دورہ کامیاب ہوا۔

مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اس ملاقات کے بعد جو باتیں رفتہ رفتہ سامنے آئیں وہ یہ تھیں کہ ٹرمپ نے وزیراعظم سے کہا کہ آئندہ کشمیر کا نام نہیں لیں، کشمیر اب بھارت کا ہوگا، بھلا آپ قرارادادیں منظور کریں اس سے آگے نہ جنگ ہوگی اور نہ ہی مزید کچھ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے فرمایا تھا کہ مودی آئے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا اور یہ بھی فرمایا کہ مقبوضہ کشمیر تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے، اس کی کبھی وضاحت نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام واقعات اور بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مودی کو وہاں لانے کا مقصد کشمیر پر قبضہ کرنا اور عمران خان کو یہاں لانے کا مقصد کشمیر، بھارت کےحوالے کرنا تھا۔

سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ سیاق و سباق دیکھیں گے تو نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اچانک کچھ ہوا بلکہ حکمت عملی کے تحت یہ سب کچھ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے اور فلسطین کی سرزمین بھی حوالے کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جو قائد اعظم کے ارشادات اور قوم کا مؤقف کے بھی خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ 70 سال سے ہم کشمیر کی اخلاقی، سیاسی، سفارتی جنگ لڑ رہے تھے لیکن آج حالات مختلف ہے۔

جعمیت علمائے اسلام کے رہنما نے کہا کہ اس کے بعد اور اس دوران حکمرانوں نے کشمیری بھائیوں، خواتین اور جو بچے یتیم ہو رہے ہیں، ان کو ان مظالم سے نکالنے اور کشمیر کی پرانی حیثیت بحال کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکمرانوں سے سوالات ہیں لیکن میری نظر میں اس پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے، بھارت یا کسی اور کو گلہ کرنے کے بجائے یہ ہمارے کرتوت اور ہمارا کیا دھرا ہے اور ہم نے سالانہ قراردادوں کے سوال کچھ نہیں کیا۔

کشمیر پر جنرل گریسی کی پالیسی کا تسلسل ہے، سراج الحق

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کل یہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اور اس سے بھی پہلے پرویز مشرف کی حکومت تھی اور سب حکومتیں ایک جیسے بیانات دیتی ہیں لیکن کوئی حل نہیں نکلتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک نظریہ، ایک شہ رگ، پاکستان کے لیے زندگی اور موت ہے، کشمیر ہمارا حال اور مستقبل بھی ہے اور کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہمیں گھر سے فون آجائے کہ خدانخواستہ آپ کی بیٹی یا بھائی کو اغوا کر لیا گیا ہے تو ہم سب کچھ چھوڑ کر اس طرف دوڑیں گے اور اپنی بیٹی، ماں اور بھائی کے لیے وہ سب کچھ کرلیں گے جو کرسکتے ہیں۔

سراج الحق کا کہنا تھا کہ میں حیران ہوں کہ لوگ نیلسن منڈیلا کی بات کرتے ہیں جبکہ آسیہ اندرابی نے 31 سال قید و بند میں گزارے ہیں، سید علی گیلانی نے 27 سال نظر بندی، کبھی جیل، کبھی رہائی برداشت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں نیلسن منڈیلا کی طرح سیکڑوں قیدی موجود ہیں۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ ہم کشمیر کے لیے ایک ہزار سال لڑیں گے لیکن اس کے بعد جنرل ضیاالحق، پرویز مشرف اور ہر حکومت نے اعلانات کیے لیکن رفتہ رفتہ ساری جدوجہد اور مہم ختم ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت نے کمال کر دکھایا ہے کہ گلگت بلتستان کے بارے میں فیصلہ کیا کہ یہ پاکستان کا عبوری صوبہ ہوگا اور اسی بیان کو بنیاد بنا کر بھارت نے دنیا کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا کہ جو کام پاکستان کر رہا ہے وہی کام چند مہینے پہلے ہم نے کیا تو اس پر کیوں اعتراض کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی اس سے پہلے بھی حکومتوں کے ساتھ رہے ہیں اور جہاندیدہ سیاست دان ہیں لیکن پاکستان کے ایک نمائندے نے بھی سلامتی کونسل میں کشمیر کے حوالے سے بات نہیں کی حالانکہ پاکستان سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 1948 سے اب تک ایک پالیسی ہے جو جنرل گریسی نے بنائی تھی، ہمارے قبائلی علاقوں کے لوگ 1948 میں کشمیر گئے تھے لیکن کراچی سے لے کر پشاور تک ایک آدمی بھی نہیں گیا اس لیے کوئی پاکستانی کشمیر کی آزادی کے لیے اس جنگ میں شریک نہیں ہو گا لیکن قبائلی جانا چاہتے ہیں تو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

سراج الحق نے کہا کہ 2 ہزار 300 ہمارے لوگ شہید ہوئے تھے اور 2019 میں جنرل گریسی کے بعد ہمارے وزیراعظم نے اعلان کیا کہ جو کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے سرحد پر جائے گا پاکستان اور کشمیر کا غدار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ پی ٹی آئی کی حکومت کا نہیں ہے، یہ ایک پالیسی ہے جس کا تسلسل ہے، یہ جس طرح جنرل گریسی نے ترتیب دیا تھا آج کی حکومت بھی اس پالیسی کے مطابق چل رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل گریسی نے اعلان انگریزی میں کیا تھا اور ہمارے وزیراعظم نے اردو میں اعلان کیا تھا کہ جو بھی وہاں جائے گا غدار ہوگا جس پر سید علی گیلانی، شبیر شاہ اور آسیہ اندرابی بھی حیران ہوگئے تھے کہ جس نے اعلان کیا تھا کہ میں کشمیر کا سفیر بنوں گا اس نے فتویٰ دیا کہ جو جائے گا وہ غدار ہوگا۔

'کشمیر پر بین الاقوامی کانفرنس اسلام آباد میں بلالیں'

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ہم نے مشورہ دیا تھا کہ آپ کی مصروفیات زیادہ ہیں اس لیے کشمیر کے معاملے پر ایک نائب وزیر خارجہ رکھ لیں جس کا 365 دن یہی کام ہو اور اس سے آپ کو عزت ملے گی۔

انہوں نے وزیر خارجہ کو تجویز دی کہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ایک بین الاقوامی کشمیر کانفرنس اسلام آباد میں بلا لیں، صرف کشمیر کے موضوع پر کانفرنس بلائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں مانتا ہوں کہ اس وقت آپ تنہائی کا شکار ہیں، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسا ملک بھی ہمارے ساتھ ہم آہنگ نہیں لیکن کشمیر مظلوم ہے اور مجھے یقین ہے کہ جب آپ اخلاص کے ساتھ دنیا میں جائیں گے تو ہم آپ کا بھرپور ساتھ دیں گے اور آپ کشمیر کا نجات دہ ہندہ بنیں گے۔

سراج الحق نے کہا کہ حکومت نے جو نقشہ جاری کیا تھا اس کو ہم نے خوش آئند قرار دیا تھا اور اس نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے ضروری ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو عبوری حکومت قرار دیں اور مقبوضہ کشمیر کے لوگ جو کینیڈا، امریکا اور سعودی عرب سمیت جہاں بھی موجود ہیں ان کو نمائندگی دیں اور آزاد کشمیر کی اسمبلی کو کشمیر کی اسمبلی قرار دیں اور اس میں تمام کشمیریوں کو نمائندگی دیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی نقشے کے ساتھ یہ اقدامات نہیں کرتے ہیں تو نقشہ بھی ادھورا اقدام ہوگا لیکن آپ بھول گئے کہ آپ نے کہا تھا کہ ہر جمعے کو کشمیر ڈے منائیں گے لیکن آپ بھول گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 5 فروری کو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ایک متفقہ ایکشن پلان تیار کریں، اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے ہیں بھی لیکن کشمیر کے حوالے سے کوئی پروگرام کریں گے تو 22 کروڑ عوام آپ کے ساتھ ہوں گے۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پہلا قدم اٹھانا پڑے گا، اعلانات کی دنیا سے باہر آکر عملی کام کرنا پڑے گا، کشمیر اورپاکستان کی پوری قوم آپ کے کسی ایکشن پلان کی منتظر ہے۔

دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی کے حق میں قرارداد

اجلاس کے آخر میں راجا ظفرالحق نے ایک قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی اور ان کے ساتھیوں کو بڑے عرصے حراست میں رکھا ہوا ہے اور وہاں سے سینیٹ سے قرارداد کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اپویشن لیڈر نے قرارداد پیش کی کہ ایوان مقبوضہ کشمیر میں دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرانی کی غیر قانونی گرفتاری اور مظالم کی مذمت کرتا ہے اور 14 جنوری کو کٹھ پتلی عدالت کے ذریعے آسیہ اندرابی کو سزا دینے کی تیاریوں کی بھی مذمت کی جاتی ہے۔

راجا ظفرالحق نے کہا کہ آسیہ اندرابی کا معاملہ عالمی سطح پر ان کی فوری رہائی کے لیے اٹھایا جائے۔

چیئرمین سینیٹ نے سیکریٹری کو ہدایت کی کہ قرارداد اقوام متحدہ اور تمام سفارت خانوں کو بھجوا دیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں