لاک ڈاؤن کے سبب 2کروڑ 7لاکھ سے زائد افراد روزگار سے محروم ہوئے، سروے میں انکشاف

08 جنوری 2021
لاک ڈاؤن کے دوران دو کروڑ سے زائد افراد روزگار سے مھروم ہو گئے تھے— فائل فوٹو: اے ایف پی
لاک ڈاؤن کے دوران دو کروڑ سے زائد افراد روزگار سے مھروم ہو گئے تھے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: ایک سرکاری سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ کورونا وائرس سے متعلق لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان کے 2کروڑ 7لاکھ 60 ہزار افراد روزگار کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور ان میں سے ایک بڑی تعداد جولائی 2020 کے بعد دوبارہ کام پر چلی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پلاننگ کمیشن نے جمعرات کو کہا کہ ملک کی 10سال یا اس سے زائد عمر کی 35 فیصد (تقریباً 5کروڑ 57لاکھ 40 ہزار) آبادی کووڈ-19 کے آغاز سے قبل کام کر رہی تھی لیکن لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد سرگرمیاں بند ہونے کی وجہ سے یہ گھٹ کر 22 فیصد (تقریباً 3کروڑ 50 لاکھ 40 ہزار) رہ گئے، پاکستان کے بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس کے ذریعہ کیے گئے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کمیشن نے کہا اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 2 کروڑ 7 لاکھ 60 ہزار آبادی متاثر ہوئی۔

مزید پڑھیں: کورونا ریلیف فنڈ لاک ڈاؤن کے باعث بے روزگار ہونے والوں کیلئے مختص کردیا، وزیراعظم

وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر کی زیرصدارت ایک جائزہ اجلاس میں اس اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ جولائی کے بعد بحالی کا عمل شروع ہوا اور 33 فیصد عوام نے اپریل جولائی 2020 کے بعد کام کرنے کی اطلاع دی، اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 5کروڑ 25 لاکھ 60 ہزار افراد نے دوبارہ کام کرنا شروع کیا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے ایک کروڑ 70 لاکھ 70 ہزار گھرانوں کا ذریعہ معاش متاثر ہوا ہے، سروے کے شواہد نے بتایا ہے کہ اگر سخت لاک ڈاؤن کا عمل جاری رہتا تو کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے مزدوروں اور ان کے اہل خانہ پر تباہ کن اثرات دیکھنے کو مل سکتے تھے۔

اجلاس میں کووڈ۔19 کے لوگوں کی فلاح و بہبود پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے کئے گئے سروے کے نتائج کے بارے میں بتایا گیا، سروے میں آمدنی، ترسیلات زر، غذائی عدم تحفظ اور صحت کے سلسلے میں گھر اور اثاثوں کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی اور اثاثوں سے متعلق معلومات جمع کی گئیں۔

اس میٹنگ میں حکومت کے "ڈیجیٹل پاکستان" پروگرام کے ایک حصے کے طور پر پاکستاب بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس کی جانب سے بنائے گئے افراط زر کے لیے فیصلے کی حمایت کے نظام (ڈی ایس ایس آئی) تیار کرنے کے اقدام کا بھی جائزہ لیا گیا، یہ نظام پالیسی سازوں، نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی، صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کو ملک میں شواہد پر مبنی پالیسی فیصلے لینے اور افراط زر کی وجوہات حل کرنے کا اہل بنائے گا، ڈی ایس ایس آئی مارکیٹ کی سطح پر معلومات فراہم کرنے، قیمتوں کے لحاظ سے شہر میں موازنے جیسی خصوصیات سے لیس ہے، اجلاس کو بتایا گیا کہ یہ نظام ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کردہ ریٹ اور ہفتہ وار بنیادوں پر پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس کی جانب سے جمع کردہ ریٹ کے درمیان تقابلہ جائزہ بھی فراہم کرے گا۔

تصاویر دیکھیں: کورونا وائرس کے سبب لاکھوں افراد بے گھر

واضح رہے کہ ضلعی انتظامیہ منڈیوں کی مؤثر نگرانی کر کے قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے لیکن ضلعی انتظامیہ اور پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس کی جاری کردہ قیمتوں کا موازنہ کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

پہلے قدم کے طور پر ڈی ایس ایس آئی ملک کے 17 بڑے شہروں میں ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی کی نگرانی کے لیے صوبائی اور وفاقی سطح پر اعلیٰ انتظامیہ کے لیے اعداد و شمار سے چلنے والا طریقہ کار مہیا کرے گا، یہ نظام وزیر اعظم کی منظوری کے بعد شروع کیا جائے گا اور اس پر عملدرآمد قومی قیمتوں کی نگرانی کمیٹی کے ذریعے کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں