ایران کو جوہری معاہدے میں امریکا کی واپسی کیلئے جلدی نہیں، خامنہ ای

08 جنوری 2021
خامنہ ای نے کہا کہ امریکا پہلے پابندیاں اٹھائے—فوٹو: رائٹرز
خامنہ ای نے کہا کہ امریکا پہلے پابندیاں اٹھائے—فوٹو: رائٹرز

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد 2015 کے جوہری معاہدے میں امریکا کی واپسی کی ہمیں جلدی نہیں ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ خامنہای کا کہنا تھا کہ معاہدے میں امریکا کی واپسی کا سوال نہیں ہے بلکہ دو طرفہ پابندیاں ہٹانے کی بات ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا پابندیاں اٹھا لے تو جوہری معاہدے کی پاسداری کریں گے، ایران

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے اور ہم ان کی واپسی پر اصرارنہیں کر رہے ہیں، ہمارا مطالبہ منطقی اور عقلی بنیاد پر ہے کہ وہ پابندیاں ہٹا دی جائیں جو ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں عائد کی تھیں'۔

انہوں نے کہا کہ ایران پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہی امریکا معاہدے میں واپسی پر خیر مقدم کرے گا۔

ٹی وی خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ایک حق کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ایرانی قوم سے چھینا گیا ہے'۔

سپریم لیڈر نے کہا کہ 'اگر پابندیاں ہٹادی جاتی ہیں تو اس کے بعد امریکا کی واپسی کی وجہ ہوسکتی ہے'۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہر معاہدے سے دستبرداری اور ایران پر پابندی کے فیصلے کے بعد ایران اور امریکا کے درمیان دہائیوں سے جاری کشدگی میں شدت آگئی تھی۔

امریکا میں 3 نومبر 2020 کو ہوئے صدارتی انتخاب میں فتح حاصل کرنے والے جوبائیڈن نے جوہری معاہدے میں واپسی کے اشارے دیے ہیں جو 20 جنوری کو امریکا کےصدرکی حیثیت سے منصب سنبھال لیں گے۔

امریکا کے نومنتخب صدر نے عندیہ دیا تھا کہ وہ معاہدے میں واپسی کے بعد ایران کے ساتھ واضح انداز میں بات کرناچاہتے ہیں جس میں خاص کر میزائل اور مشرق وسطیٰ سمیت خطے میں اثر رسوخ شامل ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی سینیٹرز کا ٹرمپ سے ایران پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ

ایران کے سپریم کمانڈر کی جانب سے جوہری معاہدے سے متعلق بیان ایک ایسے وقت میں سامنا آیا ہے جب ایک دن قبل ہی پاسداران انقلاب نے اسٹریٹجک میزائل کا تجربہ کیا تھا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر میں میزائل پروگرام پر ایران کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پروگرام بیرونی خطرات کو روکنے اور اپنے ملک کے دفاع کی خاطر ترتیب دیا گیا ہے۔

ایران نے 2019 سے جوہری معاہدے پر بتدریج پیچھے ہٹنا شروع کردیا تھا اور یورینیم افزودگی میں اضافہ کردیا تھا۔

ایران نے امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ کی ہلاکت کے بعد عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔

جوہری معاہدے میں شامل برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران پر معاہدے پر من و عن عمل کرنے کے لیے زور دیا تھا لیکن ایران بدستور اس کو مسترد کرتا رہا ہے۔

ایران کا مؤقف تھا کہ 'جب معاہدے کے تمام فریق عملی طور پر عمل نہیں کررہے ہوں تو صرف ایران پر زور نہیں دیا جاسکتا، اگر وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں تو ہم بھی واپس آئیں گے'۔

تبصرے (0) بند ہیں