لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔
لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔

جو بائیڈن امریکا کے 46ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے ہیں اور دنیا ایک بار پھر امریکی خارجہ پالیسی میں دوبارہ استحکام اور مقصد کا احساس پیدا ہونے کا انتظار کررہی ہے، جسے ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نقصان پہنچایا گیا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی ٹرمپ کے آنے سے پہلے ہی راستے سے بھٹک چکی تھی۔ امریکا کو عالمی قیادت بنانے سے متعلق واشنگٹن کے خواب کا نتیجہ نہ ختم ہونے والی جنگوں اور امریکی خارجہ پالیسی میں عسکریت کا باعث بنا۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اندر اور باہر ناراضگی اور شکایات میں اضافہ ہوا۔ ٹرمپ نے اس مسئلے کو اٹھانے میں اپنے لیے موقع تلاش کرلیا۔

ٹرمپ نے خاص طور پر چین کے ساتھ تعلقات، عالمگیریت اور اس عالمی اشرافیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ہدف بنایا جو اپنے کاروباری اور ذاتی مفاد کو امریکا اور خاص طور پر امریکا کے ملازمت پیشہ طبقے کے مفادات پر ترجیح دیتے تھے۔

مزید پڑھیے: نئی امریکی حکومت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے؟

لیکن خارجہ پالیسی کو درست کرنے کے بجائے انہوں نے اسے مزید نقصان پہنچایا اور اس پالیسی اور اس کی عوامی حمایت کو مجروح کیا۔ ٹرمپ تو انتخاب ہار گئے ہیں لیکن ان کے خیالات زندہ رہیں گے۔ وہ آگے بھی عدم اطمینان کا باعث بنتے رہیں گے اور ایک پہلے ہی غیر فعال نظام کی مزید تباہی کا باعث بنتے رہیں گے۔

کئی چیزوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بائیڈن کو ایک شورش پسند ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ایک منقسم ملک اور کورونا زدہ معیشت کی بہتری کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی انہیں اپنی ہی جماعت کے اس ترقی پسند گروہ کا بھی سامنا کرنا ہے جو داخلی معاملات میں تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ اس وجہ سے بائیڈن کی ترجیح داخلی سیاست ہوگی۔

خارجہ پالیسی کو بھی سب سے پہلے داخلی ضروریات کو پورا کرنا ہوگا اور خاص طور پر امریکیوں کے روزگار اور کاروبار کا تحفظ کرکے ملک کو استحکام دینا ہوگا۔ چین کے ساتھ عسکری، معاشی، تکنیکی اور نظریاتی مقابلے کی جغرافیائی سیاست کا بھی امکان کم ہے۔ اس کے برعکس بائیڈن کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ چین کو نیچا دکھانے کے بجائے ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا کو مزید آگے لے جائیں تاکہ امریکا کی حاکمیت برقرار رہے۔

اسی طرح جغرافیائی معیشت میں بھی عالمی اشرافیہ کے بجائے ملازمت پیشہ اور اوسط آمدن والے امریکیوں کے مفادات کا خیال رکھنے کے لیے تبدیلیاں لانی ہوں گی، اور آخر میں، سیاست اور معیشت میں توازن پیدا کرنا ہوگا کیونکہ امریکا کو صرف چین کے ساتھ مقابلہ ہی نہیں کرنا بلکہ معیشت کی بہتری کے لیے چین کے ساتھ مل کر بھی کام کرنا ہوگا۔

چین کے ساتھ شراکت وباؤں اور موسمی تبدیلی جیسے عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ موسمی تبدیلی ڈیموکریٹس کے ترقی پسند گروہ کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت ’10 سالوں کے دوران صاف توانائی اور اینو ویشن سینٹرز میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی جس سے ایک کروڑ اچھی تنخواہ والی اوسط درجے کی یونین ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی‘۔

خارجہ پالیسی کے دیگر پہلوؤں کی بات کی جائے تو مغربی یورپ اور جاپان کے ساتھ امریکا کے تعلقات بحال ہوں گے اور اسرائیل، بھارت اور خلیجی ممالک کے ساتھ امریکا کے مضبوط تعلقات ایسے ہی جاری رہیں گے۔ تاہم بائیڈن روس کے ساتھ سخت رویہ رکھیں گے کیونکہ امریکا کے لیے روس خارجہ پالیسی کا ایک چیلنج بھی ہے اور ایک داخلی مسئلہ بھی۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں آنے والی بڑی تبدیلیاں کیا ہوں گی؟

چونکہ بائیڈن کو کانگریس میں بہت زیادہ حمایت حاصل نہیں ہوگی اس لیے مقامی سیاست ان کے دیگر ایجنڈوں میں رکاوٹ بنے گی۔ اسی وجہ سے شاید ایران جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے میں بھی کوئی جلدی نہ کی جائے۔

اگر پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات کی بات کی جائے تو چیزیں جیسی نظر آرہی ہیں شاید ویسی نہ ہوں۔ بائیڈن انتظامیہ اوباما انتظامیہ کا تسلسل نہیں ہوگی، یاد رہے کہ پاکستان کے پاس اوباما انتظامیہ کے حوالے سے بہت اچھی یادیں نہیں ہیں۔ پاک امریکا تعلقات کا انحصار ماضی کے 19 سالوں پر نہیں ہوگا کیونکہ اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ امریکا کی جنگ اب تاریخ بنتی جارہی ہے اور امریکا اور پاکستان کے درمیان افغانستان کے معاملے پر تاثر اور پالیسی کے اختلافات بھی کم ہوگئے ہیں۔

لیکن افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اب بھی دُوریاں موجود ہیں جنہیں صرف مذاکرات سے کم نہیں کیا جاسکتا۔ اس وجہ سے یہ تنازعہ کسی نئے نام کے ساتھ جاری رہے گا اور امریکا کو اس تنازع کو جنگ کے علاوہ کسی اور طریقے سے حل کروانا پڑے گا اور وہاں پاکستان کی مدد بہت اہم ہوگی۔

افغانستان کا تعلق دہشتگردی کے مسئلے سے بھی ہے۔ اگر اس تنازع کا کوئی حل نہ نکلا تو اس سے خاص طور پر پاک افغان سرحدی علاقے میں داعش اور القاعدہ جیسے دہشتگردی کے بین الاقوامی نیٹ ورکس کو فروغ ملے گا۔

طالبان کو قوت ملنے سے پاکستان میں بھی عسکریت پسندی اور شدت پسندی میں اضافہ ہوگا۔ یہ ایک ایسا خطرہ ہے کہ جس سے ناصرف پاکستان بلکہ بھارت کے استحکام کو بھی خطرہ ہے۔ اس سے امریکا کی چین کے حوالے سے پالیسی بھی متاثر ہوگی۔ اس طرح امریکا کے لیے پاکستان کی ضرورت افغانستان کے معاملے سے مزید آگے بڑھ جائے گی۔ اس وقت امریکا کی سلامتی اور جنوبی ایشیا میں اس کے مفادات خطرے میں ہیں۔

اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ امریکا کی انڈو پیسیفک حکمتِ عملی میں چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ہدف بنایا جائے اور پاکستان پر امریکی اور بھارتی دباؤ ڈالا جائے۔ کیونکہ اس طرح پاکستان چین کے مزید قریب ہوجائے گا اور چینی مفادات کے لیے کام کرے گا۔ لیکن اگر پاکستان امریکا کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتا ہے تو اسے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات پر مثبت ردِعمل دینا ہوگا۔

ماضی کی طرح دوبارہ امداد ملنے کا ابھی تک کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ وہ امداد سرد جنگ اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ملا کرتی تھی اور اب یہ دونوں ہی صورتحال موجود نہیں ہیں۔ لیکن یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آجائیں جس میں پاکستان امریکا کا اتحادی تو نہ ہو لیکن اس سے الگ بھی نہ ہو۔ اس کے متبادل کو دیکھا جائے تو اس طرح کا تعلق ہی بہتر رہے گا۔


یہ مضمون 10 جنوری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں