بیرم بیگ: عجم سے ماچھی واڑہ تک!

بیرم بیگ: عجم سے ماچھی واڑہ تک!

تحریر: ابوبکر شیخ

مکافات یا پاداش 2 الگ الگ لفظ ہوسکتے ہیں، اور یہ ہمیں انتہائی مختصر لفظ بھی محسوس ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ الفاظ ان کوزوں کی مثل ہیں جن میں زندگی کے الٹ پھیر کا ایک سمندر پنہاں ہے۔

یہ ہر وجود کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ کسی معصوم منشی کی طرح اس وجود کے ہر عمل کو دیکھتے رہتے ہیں اور جب حیات کی دوپہر ڈھلتی ہے اور شام ہونے لگتی ہے تو حساب کتاب کی کتابیں کھلتی ہیں اور تب پاداش کا عمل شروع ہوتا ہے۔

میرے خیال میں اس میں کوئی عربی فارسی نہیں ہے جو ہماری سمجھ میں نہ آئے۔ یہ تو حیات کے کھیت کا حساب کتاب ہے۔ جو بویا ہوگا وہی اُگ کر جوان ہوا ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ نے بیج کسی شیریں پھل کا لگایا ہو اور عمل کی زمین سے کیکر اُگ پڑا ہو؟ اور آپ نے بغیر دیکھے اور سوچے بیج کیکر کا لگایا ہو اور امید رکھ بیٹھے ہوں کسی شیریں پھل کی تو یہ عبث کے سوا کچھ نہیں۔

13ویں صدی میں منگولوں کے مسلم ممالک پر حملے کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ تعداد میں ترک بھی آئے اور انہوں نے وسط ایشیا کو اپنا مسکن بنایا۔ اناطولیا کی ریاستوں میں ایک قبیلے کو عروج ملا جس کا سردار عثمان تھا اور انہوں نے عثمانی سلطنت قائم کی۔

منگولوں کے 100 سال بعد تیمور کے عروج سے سمرقند اور بخارا آباد ہوئے۔ 15ویں صدی کے ایران میں پہلے قراقویلنو (یہ ترکمان نسل کا ایک قبیلہ تھا جس نے موجودہ مشرقی اناطولیہ، آرمینیا، ایرانی آذربائیجان اور شمالی عراق پر 1375ء سے 1468ء تک حکومت کی، ان کے جھنڈوں پر کالی بھیڑ کا نشان ہوتا تھا)۔ آق قوینلو (ان کے جھنڈوں پر سفید بھیڑ کا نشان ہوتا) اور 16ویں صدی میں صفوی حکومت قائم ہوئی۔ اسی صدی میں ازبک عروج کی وجہ سے تیموریوں کا ترکستان سے اخراج ہوا اور انہوں نے افغانستان اور ہندوستان میں مغل حکومت کی بنیاد رکھی۔

13ویں صدی میں منگولوں کے حملوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں ترک وسط ایشیا میں آباد ہوئے
13ویں صدی میں منگولوں کے حملوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں ترک وسط ایشیا میں آباد ہوئے

ہماری آج کی نشست ’محمد بیرم بیگ‘ سے ہے جس کا تعلق ترکمان قبیلے ’قراقوینلو‘ کے ایک جُز ’بہارلو‘ سے تھا۔ مغربی ایران سے بیرم کے دادا ’پیر علی بیگ‘ نے شمالی افغانستان ہجرت کی۔ بیرم کے دادا یار علی بیگ نے ظہیرالدین بابر کے ساتھ معرکہ آرائیاں کیں جس کا ذکر ہمیں بابرنامہ میں خوب ملتا ہے۔ بیرم بیگ ایک ایسے خاندان سے تھا جس نے برسوں تک اپنی سلطنت کا پرچم لہرایا۔ (یہاں یہ بات یاد رہے کہ ’بیگ‘ دراصل ایک خطاب ہے جو مغل قوم میں ایل خانی سلطنت کے بانی ’ہلاکو خان‘ کی چوتھی پشت سے پوتے امیر ایکو تمربانی کے خاندان کے لڑکے، امیر شکل بیگ کے نام کی نسبت سے شروع ہوا اور اس کی اولاد نے متواتر ’بیگ‘ استعمال کیا)۔

یہ ایک ایسے شہزادے کی کہانی ہے جس سے وقت نے تخت و تاج چھین لیے۔ مگر نصیب مہربان تھے، جس کی وجہ سے تکالیف اور ذلتوں کی دھوپ سے بچا رہا۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ قراقوینلو دورِ حکمرانی ’قرا یوسف‘ کے والد ’قرا محمد‘ کا کارنامہ تھی۔ 1400ء کے لگ بھگ قرا محمد کے انتقال کے بعد قرا یوسف کو اقتدار ملا۔ لیکن اس دوران امیر تیمور صاحب قِران کے خوف سے اس کو ملک چھوڑنا پڑا۔ تیمور نے چین پر حملہ کرنے کے لیے دریائے سیحوں 18 فروری کو پار کیا۔ سخت سردی میں اس کا جسم اکڑ گیا اور 19 فروری جمعرات کو سیر دریا کے کنارے اس کی موت ہوئی۔

تیمور کی موت ہوئی تو قرا یوسف نے اپنے قبیلے کے ہزاروں لوگوں کے ساتھ ’دیار بکر‘ پر قبضہ کرلیا۔ اس قبضے کا سن کر مرزا ابابکر جو تیمور کے بعد حکمران ہوا تھا اس نے حملہ کردیا مگر جنگ میں مارا گیا۔ 1410ء میں قرا یوسف نے بغداد میں ’جلائر سلطانوں‘ کی حکومت ختم کرکے اپنی حکومت قائم کی۔ (جلائری قبائل ’ایل خانیوں‘ ہی کی ایک شاخ تھی اور یہ نسلاً منگول تھے۔ جب ایل خانی سلطان ابو سعید کا انتقال ہوا تو امرا مرکز میں صاحبِ اقتدار ہوئے)

تیمور کے انتقال کے بعد قرا یوسف نے ’دیار بکر پر قبضہ کرلیا
تیمور کے انتقال کے بعد قرا یوسف نے ’دیار بکر پر قبضہ کرلیا

1429ء میں شاہ رخ تیموری (امیر تیمور کا چوتھا اور سب سے چھوٹا بیٹا، جس نے تیمور کی موت کے 12 سال بعد پھر تیموری سلطنت کو بحال کیا) نے میراں شاہ بن تیمور کے قتل کے بدلے اس پر چڑھائی کردی۔ اس سے پہلے کے جنگ ہوتی قرا یوسف کا انتقال ہوگیا۔ اس کے 2 بیٹے تھے، مرزا اسکندر اور جہاں شاہ۔ ان میں سے جہاں شاہ ہمیں ان دنوں سیاسی منظرنامے میں نظر آتے ہیں اور ساتھ میں ہمیں ’پاشا بیگم‘ کا نام بھی نظر آتا ہے جو علی شکر بیگ کی بڑی بیٹی تھیں (علی شکر بیگ، بیرم بیگ کے دادا کے دادا تھے)۔

اس کی پہلی شادی مرزا محمدی بن جہاں شاہ سے ہوئی تھی، اس کے قتل ہونے کے بعد دوسرا نکاح سلطان محمود مرزا بن سلطان ابو سعید سے ہوا۔(سلطان ابو سعید بابر کے دادا تھے)۔ بیرم کے والد سیف علی بیگ عراق تخت کے حصول کے لیے گئے تھے تو واپسی پر ان کا انتقال ہوگیا اور یوں بیرم خان کی پرورش پاشا بیگم نے کی۔

عمر شیخ مرزا سمرقند میں 1456ء میں ابو سعید مرزا کے گھر پیدا ہوا۔ عمر شیخ مرزا کا بڑا بیٹا ظہیرالدین بابر تھا۔ بابر سے 5 برس بڑی اس کی بہن ’خانزادہ بیگم‘ تھی جس سے ’شیبانی خان لازبک‘ نے سمرقند پر حملے کے وقت شادی کرلی تھی۔ بابر شادی سے پہلے کابل کا بادشاہ تھا اور شادی کے بعد اس کے والد نے اسے ’فرغانہ‘ کا حاکم بنادیا۔

ہم نے یہاں پوری کوشش کی ہے کہ ان دونوں خاندانوں اور ان کے ایک دوسرے سے رشتوں کا جو تانا بانا ہے اس کا خاکہ آپ تک پہنچ جائے کہ آگے آنے والے حالات اور واقعات کا درست رنگ آپ تک پہنچ سکے۔

ان کے رشتوں کی زمین عجم، ایران، سمرقند، افغانستان رہی جو یقیناً ٹھنڈے علاقوں کی سرزمین ہے۔ مگر ہماری کہانی کی زمین پاک و ہند کی سرزمین ہے جس کے اوپر سے خط سرطان کی لکیر ہے۔ اس لیے شمالی خط میں ٹھنڈ اور جنوب میں گرمی ان دونوں خطوں کی اہم پہچان ہیں اور یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ دونوں خطوں کے رہنے والوں کی طبعیت، لباس، سوچ، منظرناموں، رسم و رواج اور خوراک میں زمین آسمان کا فرق ہوگا، اور ظاہر ہے کہ انہی اسباب کی وجہ سے جسم کے خدوخال میں بھی فرق ہوگا۔ اب چونکہ یہ نقل مکانی ٹھنڈے علاقوں سے گرم خطے کی طرف تھی تو ان کے لیے یہاں کا سب کچھ نیا تھا۔

بیرم بیگ 16 برس کی عمر میں بابر کے دربار میں داخل ہوا۔ بابر اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا کہ وہ حسب نسب میں بزرگ اور ترکمان سلاطین کے خاندان سے تھا۔ اس لیے مصاحبوں اور مشیروں میں اس نے اپنی ایک خاص جگہ پیدا کرلی تھی کہ پاشا بیگم کی تربیت میں پلا بیرم بیگ کی تعریف بابر بھی کرتا تھا۔

ہند میں مغل سلطنت کے قیام اور استحکام پیدا کرنے میں جتنا حصہ بیرم خان کا رہا اس کا اور کوئی مدمقابل نہیں۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ اکثر تاریخوں میں یہ لکھا گیا ہے کہ ’خان خانان‘ کا لقب سب سے پہلے بیرم بیگ کو دیا گیا تھا، مگر ایسا نہیں ہے۔

تاریخ مبارک شاہی کے مطابق ’خان خانان کا لقب خلجی خاندان کے، جلال الدین فیروز شاہ (1290ء) نے اپنے بیٹے محمود کو اور اس کے بعد سلطان محمد نے ملک بہلول لودھی کو (1451ء) دیا تھا‘۔ جبکہ وقائع بابر کے مطابق ’بابر نے دلاور خان لودھی کو یہی خطاب اس کی خیر خواہی کے صلے میں عنایت کیا۔ دلاور خان، دودمان بابری کا پہلا خان خانان ہے‘۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خطاب سے ان میں سب سے زیادہ معروف بیرم اور اس کا بیٹا عبدالرحیم ہی رہا۔

بیرم خان، تصویر بشکریہ آغاخان میوزیم
بیرم خان، تصویر بشکریہ آغاخان میوزیم

بیرم بیگ خوش نصیب ہی تھا جو تیموری خون نے اسے اپنی آنکھوں پر بٹھایا۔ مآثر رحیمی کے صفحات پر تحریر ہے کہ ’اسی زمانے میں جب بیرم، بابر کے پاس آیا تھا تو محمد ہمایوں نے اپنے والد سے درخواست کی تھی کہ اس اعلیٰ نژاد شخصیت کی تربیت آپ فرمائیں۔ اس گزارش کو قبول کرکے بیرم کو بابر نے اپنی نگرانی میں لے لیا اور تبصرہ کرتے ہوئے ہمایوں کو کہا کہ ’جس طرح ہمارے آباء نسل در نسل بادشاہ ہوئے ہیں یہ بھی سلاطین زادے ہیں۔ اگر میرا تمہاری طرح بیٹا نہ ہوتا تو میں بیرم کو اپنا بیٹا بنا لیتا‘۔ یہ الفاظ جو بابر نے ادا کیے وہ ان زمانوں میں کسی بھی فرد کے لیے ایک اعزاز سے کم نہ تھے۔

شہنشاہ ہمایوں
شہنشاہ ہمایوں

بیرم بیگ اپنی حیاتی کا بڑا حصہ جو 41 برس ہے، ہمایوں کے ساتھ ساتھ رہا۔ چانپانیر (انہل واڑہ)، قلعہ تلیہ گڑھی، جنگ چوسہ، جنگ قنوج یہ سب ایسے معرکے ہیں جن کی کامیابی بیرم بیگ (خان خانان) کی ذہانت کی وجہ سے ممکن ہو پائی۔ بابر کی وفات کے 10 برس بعد 1540ء میں فرید خان (شیر خان سوری) جو بابر سے عمر میں 3 سال چھوٹا تھا اور وہ بابر کے ساتھ بھی رہا اس نے 1540ء میں ہمایوں کو قنوج میں شکست دے کر وہ ملک جو بابر نے فتح کیا تھا اپنے قبضے میں لے لیا۔ 1545ء میں کالنجر کا قلعہ فتح کیا، وہاں بارود پھٹنے سے اس کی موت ہوئی تب اس کے تخت پر اس کا بیٹا سلیم شاہ سوری بیٹھا۔

ہمایوں باپ کی طرح معجون کا رسیا تھا۔ وہ سوری سے بھاگتا لاہور اور پھر سندھ پہنچا۔ 1541ء میں حمیدہ بانو بیگم سے شادی کی اور گجرات چل پڑا، مگر ہمایوں سے بخت روٹھا ہوا تھا۔ وہ ریگستانوں کی خاک چھانتا گجرات سے واپس عمرکوٹ آ پہنچا جہاں اکبر پیدا ہوا۔

1542ء میں وہ فتح باغ (جُون) کے لیے نکل پڑا۔ ٹھٹہ کا حاکم مرزا شاہ حسن ان دنوں بکھر کے قلعے میں تھا اور بادشاہی شغلوں میں مشغول تھا۔ جب پتا چلا کہ ہمایوں عمرکوٹ سے نکل پڑا ہے تو اسے اپنا تخت ڈولتا نظر آیا اور وہ ٹھٹہ کے لیے نکل پڑا۔ ہمایوں کو فتح باغ کا کوٹ رہنے کے قابل لگا تو اس نے اپنی فوج اور اہل و عیال کو یہاں رہنے کے لیے بلا لیا۔ مرزا شاہ حسن سے جتنا ہوسکا اتنا ہمایوں کو پریشان کرتا رہا۔

بیرم بیگ جنگ چوسہ (نہاوندی اسے ’چونسہ‘ تحریر کرتا ہے جو درست نہیں۔ یہ جنگ گنگا کنارے 27 جون 1539ء میں ہوئی تھی) کے بعد ہمایوں سے جدا ہوگیا تھا۔ بہت سی کہانیاں ہیں کہ وہ فرید خان سے ملا مگر اس کی کوئی بات نہیں مانی۔ وہ کوہستان لکھنور میں 2 برس رہا۔ پھر برہانپور سے ہوتے ہوئے گجرات کی راہ لی، راستے میں کچھ شراب کے نشے میں مدہوش کوہلیوں والا حادثہ ہوا۔ پھر گجرات کے بادشاہ سلطان محمود کے پاس پہنچا اور کچھ ماہ وہیں رہے۔ پھر وہیں اسے پتا لگا کہ ہمایوں کو مرزا شاہ حسن مسلسل پریشان کر رہا ہے۔ یہ سن کر وہ گجرات اور بھج سے ہوتا ہوا فتح باغ پہنچا۔

جنگِ چوسہ کا منظر
جنگِ چوسہ کا منظر

یہ 7 محرم 950ھ بمطابق 12 اپریل، 1543ء، جمعرات کا دن تھا۔ ہمایوں نامہ کے صفحات کا اگر مطالعہ کریں تو بیرم بیگ کے آنے کا انتظار اور پھر آنے کی خوشی آپ کو ان الفاظ کی تحریر سے محسوس ہوگی۔ تحریر ہے کہ ’خبر آئی ہے کہ بیرم خان گجرات سے آکر چاچکان (فتح باغ سے جنوب کی طرف 20 کوس) پہنچ گیا ہے' اور بیرم کے آنے کے بعد مرزا شاہ حسن بیگ سے معاملات طے ہوئے اور یہ قافلہ قندھار کی طرف روانہ ہوا۔ مگر مرزا عسکری کی وجہ سے وہاں جانے نہ پایا۔ صلاح مشورے کے بعد، خراسان اور عراق کا ارادہ طے پایا۔ اس قافلے میں فقط 26 لوگ تھے۔ سفر سخت تھا تو اکبر کو چچا (مرزا عسکری) کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑا۔ تاریخ کے صفحات کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان برسوں میں بیرم خان کی قسمت کا ستارہ عروج پر نظر آتا ہے اور یہ سفر اس کی حیات کے کمال کی ابتدا تھی۔ ہمایوں ہرات سے مشہد گئے اور وہاں سے دارالسلطنت قزوین پہنچے۔

2، 3 ماہ تک مہمان نوازی، سیر و شکار ہوتا رہا۔ پھر تحفے تحائف ملے (کہتے ہیں کہ یہ مشہور مثل ’شاہان بشاہان دہند‘ یعنی بادشاہ بادشاہوں سے معاملات کرتے ہیں۔ یہ جملہ بیرم بیگ نے ہمایوں کی طرف سے شاہ طہماسپ کو تحفے دیتے وقت کہا تھا جو بادشاہ کو بہت پسند آیا)۔ اس موقع پر بیرم کو 12 ہزار سوار اور دوسرے تحفے ملے اور ساتھ میں ’خان‘ اور ’جعفر سلطان سلطانی‘ کے القاب سے سرفراز ہوا۔ کچھ مورخوں کا خیال ہے کہ بیرم کو ’خان خاناں‘ کا لقب طہماسپ نے دیا تھا مگر یہ درست نہیں ہے کیونکہ اس کو یہ لقب ہمایوں نے فتح ہندوستان کے دوران دیا تھا۔ البتہ ’بیرم بیگ‘ سے ’بیرم خان‘ وہ ایران میں بنا۔

شاہ طہماسپ اور ہمایوں کی ملاقات
شاہ طہماسپ اور ہمایوں کی ملاقات

اس سفر نے سیاسی حوالے سے ہمایوں کو بڑا طاقتور بنادیا تھا جس کی وجہ سے واپسی پر ہمایوں بڑے رعب تاب سے لوٹا۔ بیرم خان نے کوشش کی کہ دونوں بھائیوں میں جنگ نہ ہو۔ اس لیے اس نے کچھ نفسیاتی چالیں بھی چلیں مگر عسکری مرزا نے کچھ نہیں مانا۔ اکبر جو اس کے پاس تھا اس کو اس نے مہرہ بنایا، مگر یہ چال کچھ زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ جنگ ہوئی، عسکری ہارا اور قندھار فتح ہوا اور قلعہ شہزادہ مراد کے حوالے کیا گیا۔

کچھ وقت کے بعد شہزادہ مراد مرگیا تو ہمایوں نے قلعہ قزلباشوں سے لے کر بیرم خان کو دے دیا۔ بیرم خان 1545ء سے 1554ء تک قندھار کا حاکم رہا۔ 1554ء میں ہمایوں اور بیرم کی کابل کے اطراف میں ملاقات ہوئی اور ہمایوں نے اسے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے لیے بلایا۔ اسی برس ہمایوں لشکر کے ساتھ کابل سے دریائے سندھ کی طرف روانہ ہوا۔ اکبر بھی اس کے ساتھ تھا۔

2 جنوری 1555ء کو دریائے سندھ پار کرکے راولپنڈی والا راستہ لیا اور کلانور کی طرف چل پڑا اور بیرم خان کو جالندھر کی طرف روانہ کیا۔ بیرم نے ستلج کنارے ’ماچھی واڑہ‘ میں سکندر شاہ کی فوج کو شکست دی۔ سکندر بھاگ کر شوالک پہاڑیوں میں روپوش ہوا اور ہمایوں نے فاتح فوج کے ساتھ دہلی کی طرف کوچ کیا اور 23 جولائی منگل کے دن شہر پر قبضہ کیا۔ مگر حالات بہتر نہیں تھے۔ محمد شاہ عادل کا سپہ سالار ہیمو بقال دہلی پر قبضہ کرنے کی تاک میں تھا۔ سکندر شاہ جو سرہند سے ہار کر بھاگا تھا، وہ پنجاب میں موجود تھا اور طاقت اکٹھی کرنے میں لگا تھا جس کی وجہ سے پنجاب میں افراتفری کا ماحول تھا۔ ہمایوں نے خود دہلی میں رہنا مناسب سمجھا اور بیرم کو پنجاب بھیجا کہ وہاں امن قائم کروا سکے۔

اکبر جنوری 1556ء میں سرہند پہنچا اور سکندر شاہ کے تعاقب میں تھا کہ ہمایوں کی موت (27 جنوری 1556ء) کی خبر پہنچی۔ بیرم نے اکبر کے بادشاہ ہونے کا اعلان کروایا۔ اس وقت اکبر کی عمر 14 برس کے قریب تھی۔ ہمایوں کی وفات کا سن کر ہیمو بقال نے آگرہ پر قبضہ کرکے مغل فوج کو شکست دے کر دہلی پر بھی قبضہ کر لیا۔ یہ خبر سن کر بیرم خان نے ہیمو پر جلدی حملہ کرنے کی صلاح دی۔ اکبر نے اس کی بات مانی اور ستلج کو پار کرنے کا حکم دیا۔ اکتوبر میں اکبر نے جالندھر سے کوچ کیا اور ستلج پار کرکے سرہند پر قبضہ کرلیا۔ یہاں پر اسے ’تردی بیگ‘ اور دوسرے امراء آکر ملے۔

یہاں پر ایک اہم واقعہ ہوا۔ تردی بیگ ایک ترک جرنیل تھا۔ جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں نہیں آسکتیں اس طرح یہاں بھی کچھ ایسا ہوا۔ بیرم خان نہیں چاہتا تھا کہ تردی بیگ یا کوئی اور اس کے مدِمقابل ہو، اور ہمایوں کی اچانک موت نے بھی اسے نفسیاتی طور پر اکیلا ہونے کا احساس دلادیا تھا۔ بیرم نے تردی بیگ کو اپنے خیمے میں بلاکر قتل کردیا۔ اس عمل پر اکبر بہت ناراض ہوا۔ مگر جو حالات تھے اس میں اس واقع نے طول نہیں پکڑا۔ اکبر نے توپ خانہ ’پانی پت‘ (جو دہلی سے 35 میل شمال میں ہے) بھیجا اور 10 ہزار سوار علی قلی کی ماتحتی میں روانہ کیے۔ 5 نومبر 1556ء کے جنگ کے میدان میں ہیموں بقال بیرم کی تلوار سے مارا گیا اور اکبر کو بادشاہی ملی، مگر نگران بیرم خان تھا۔

بیرم خان اکبر کا اتالیق بنا
بیرم خان اکبر کا اتالیق بنا

اب ہم 1557ء میں کھڑے ہیں۔ بیرم خان کی عمر 56 برس کے قریب ہے۔ اکبر لاہور سے دہلی جارہے ہیں تو جالندھر میں خان خاناں، اکبر سے استدعا کرتے ہیں کہ 19 سالہ سلیمہ بیگم (جو بابر کی نواسی، ہمایوں کی بھانجی اور مرزا نورالدین کی بیٹی تھیں اور ہمایوں کی حیاتی میں ان سے منسوب کی گئی تھیں) سے نکاح کروا دیں۔ اکبر کی رضامندی اور ماہم انگہ کی کوشش سے ایک ہفتے کے اندر نکاح اور وداعی کی رسم پوری ہوئی۔ پھر کچھ برسوں کے بعد جب بیرم خان قتل ہوئے تو اکبر نے سلیمہ بیگم سے نکاح کرکے اپنے حرم میں داخل کیا تھا۔

سلیمہ بیگم
سلیمہ بیگم

اکبر کے دربار میں، بیرم کا ایک مخالف ٹولہ، ماہم انگہ اور اس کے بیٹے اُدہم خان کی صورت میں موجود تھا۔ بہرحال 1559ء تک نام اکبر کا تھا، مگر ساری طاقت بیرم کے پاس رہی۔

تاریخ کے صفحات پر لکھی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1558ء کے بعد بیرم خان کی طبعیت میں چڑچڑا پن اور سختی کچھ زیادہ ہی آگئی تھی۔ اسے شاید یہ یقین ہوگیا تھا کہ ہمایوں کے بعد وہ اکیلا ہوگیا ہے اور دھیرے دھیرے طاقت چِھن جانے کا خوف اس کے لاشعور میں سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا اور زوال کے موسم کی ہوائیں لگنی شروع ہوگئی تھیں۔

بیرم سے بہت سارے ایسے فیصلے ہوئے جو اکبر کو بالکل بھی پسند نہیں تھے، مگر وہ اتالیق کا احترام سمجھ کر خاموش رہا۔ آگے چل کر بیرم خان ہر اس فرد کا دشمن ہوگیا جس کو اکبر پسند کرتا تھا۔ خون بہانا بیرم کے لیے ایک سکون بن گیا۔ طاقت فقط ایک راستہ ہوتا ہے جانے کا، واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اس راستے کا راہی خود کو ایک بند گلی میں محسوس کرتا ہے۔ واپسی ممکن نہیں اور آگے بڑھنا بس میں نہیں رہتا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

1560ء میں کچھ ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے اکبر نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ اکبر آگرہ سے دہلی آیا اور منادی کروا دی کہ ’اکبر نے حکومت کا سارا نظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور اب اس کا حکم چلے گا‘۔ ساتھ میں بیرم کو تحریر کیا کہ ’اب میں حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے رہا ہوں۔ آپ نے ایمانداری، دیانتداری اور وفاداری سے سلطنت کا نظام چلایا۔ اب آپ مکہ شریف حج کرنے جائیں جس کو کرنے کی آپ کو بڑی تمنا تھی۔ آپ کے گزر سفر کے لیے جاگیر مقرر کی جائے گی جس کی آمدنی سے آپ کا خرچہ چل سکے گا‘۔

اکبر کی طرف سے بیرم کے لیے یہ فقط تحریر نہیں تھی بلکہ کھلم کھلا کہا جا رہا تھا کہ اب وہ ان کا پیچھا چھوڑ دے۔ یہ تحریر بیرم خان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھی۔ ساری محنت، جفاکشی اور القاب ان کچھ بے مروت الفاظ نے دھو ڈالے تھے۔ جب لحاظ کا جنازہ اُٹھ جائے تو آنکھوں میں دید کا پانی نہیں رہتا اور ان سوکھی آنکھوں میں بغاوت کی فصل اُگ پڑتی ہے۔ بیرم کے خون میں وہ گرمی تو نہیں تھی، مگر بغاوت تو بغاوت ہے۔ وہ زمین جہاں وہ مغل خاندان کے لیے لڑا انہی زمینوں پر اس نے بغاوت کا جھنڈا بلند کیا۔ حالات کو بگاڑنے والوں نے کوئی کمی نہیں کی مگر کچھ لوگوں نے اس بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنے کی کوشش بھی کی۔

’اکبرنامہ‘ میں وہ فرمان تفصیل کے ساتھ موجود ہے جو اکبر نے بیرم خان کے لیے جاری کیا تھا۔ اس کا مطالعہ کرنے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اکبر کو بیرم خان پر کتنا غصہ تھا۔ پھر ہمارے سامنے بیرم خان کا وہ خط بھی ہے جو ایک بکھرتے اور کمال سے زوال کی طرف جانے والے وجود کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ وہ اکبر کو لکھتا ہے ’میرا خاندان 3 پشتوں سے خاندان تیموریہ کا خدمت گزار رہا ہے‘۔

اگر دیکھا جائے تو وقت کے میزان کے دونوں پلڑوں میں اکبر اور بیرم کا وزن برابر نظر آئے گا۔ ایک تو وہ رشتہ دار تھے، مگر تخت و تاج کا رشتوں سے کوئی واسطہ کم سے کم آج تک مجھے تو نظر نہیں آیا۔ کیونکہ ہم اگر ’تزک بابری‘ کا مطالعہ کریں تو ’تیموریہ خاندان‘ ان تخت اور تاجوں کے لیے آپس میں لڑتا نظر آئے گا۔ تو یہاں بھی حالات اور واقعات میں کبھی بیرم کے غصے اور نفرت کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے کبھی اکبر، ماہم انگہ اور دوسرے بگاڑ پیدا کرنے والے صلاح کاروں کی باتوں میں آجاتا ہے۔

بہرحال مغل دور کے مشہور امیر ’منعم خان‘ کی وجہ سے باغی بیرم خان اور شہنشاہ اکبر میں ستمبر 1560ء میں ملاقات ہوئی۔ بیرم بادشاہ کی خدمت میں پہنچا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور بغلگیر ہوئے۔ بادشاہ نے لباس فاخرہ اٹھ کر خود پہنایا اور بڑی خوشی سے سفر حجاز کی اجازت دی اور ترسوں محمد خان کو ہمراہ کیا کہ ان کو ملکی سرحد پر چھوڑ آئیں۔ ترسوں اسے ناگور تک چھوڑ کر واپس آئے۔ 60 برس کا بیرم خان خاناں پوری تسلی سے شہر ’پاٹن‘ (گجرات) پہنچا۔

بیرم خان کی زندگی کا طویل سفر اپنی حیات کی آخری سرحد پر آ پہنچا تھا۔ ان آخری دنوں کا احوال ہم ’نہاوندی‘ سے سنیں تو زیادہ مناسب رہے گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’خان خاناں پوری تسلی کے ساتھ دوستوں اور اپنے متعلقین کے ساتھ شہر پاٹن گجرات پہنچا کیونکہ وہ علاقہ اچھی آب و ہوا کا حامل تھا۔ سیر و تفریح کی خاطر 2، 3 روز وہاں آرام کیا۔ موسیٰ خان فولادی اس شہر کا حاکم تھا۔ شور و شرپسند افغانوں کی ایک جماعت بھی اطراف میں جمع تھی۔ ان میں ایک مبارک خان لوہانی نے کہ جس کا باپ جنگ ’ماچھی واڑہ‘ میں خان خاناں کے حکم سے مارا گیا تھا انتقام کی آگ میں آکر پانی کے تالاب کے کنارے، جہاں بیرم خان سیر کے لیے گیا ہوا تھا وہاں اس سے ملنے کی خواہش کی۔ بیرم خان نے یہ سمجھ کر اجازت دے دی کہ کوئی جماعت ملنے آئی ہے۔ ملاقات کے بہانے مبارک خان نے تیز خنجر بیرم کی پیٹھ میں گھونپ دیا اور دوسرے نے شمشیر سے نشانہ بنایا‘۔

اس واقعہ کے حوالہ سے محمد حسین آزاد دربار اکبری میں تحریر کرتے ہیں کہ ’جن جن لوگوں نے اس (بیرم) کی بُرائی میں اپنی بھلائی سمجھی تھی وہ دنیا میں ناکام و بدنام ہوگئے۔ سب سے پہلے میر محمد آتکہ خان اور گھنٹہ بھر نہ گزرا تھا کہ اُدہم خان، 40 دن نہ ہوئے تھے تو ماہم انگہ‘۔

مبارک خان لوہانی نے پاٹن میں بیرم خان کو قتل کیا
مبارک خان لوہانی نے پاٹن میں بیرم خان کو قتل کیا

بیرم کو پہلے ’شیخ حسام‘ کے مقبرے کے قریب دفن کردیا گیا تھا، بعد میں اس کی نعش کو حسین قُلی خان جہاں نے مشہد میں باغ کی ایک جانب دفن کیا۔ مگر اب اگر ہم ان کی آخری آرام گاہ ڈھونڈنا بھی چاہیں تو وہ ہمیں کہیں نہیں ملے گی۔ کیونکہ اس کی قبر کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ ہاں البتہ اس کے آبائی زمین جہاں پر اس نے آنکھیں کھولی تھیں وہاں ترکمانستان کے شہر عشق آباد میں اس کا یادگار مجسمہ بنایا گیا ہے جس کے ہاتھوں میں کتاب ہے اور گھنگریالے بالوں والی داڑھی ہے۔ اگر آنکھوں کو تھوڑا غور سے دیکھا جائے تو ان آنکھوں میں بہت کچھ جاننے کی تمنائیں ہیں اور جیسے وہ گزرے حالات اور واقعات کو اب بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔

عشق آباد میں موجود بیرم خان کا مجسمہ
عشق آباد میں موجود بیرم خان کا مجسمہ

بیرم بیگ کی زندگی میں اگر اسے کوئی یہ بات سمجھا دیتا یا وہ خود سمجھ لیتا کہ تمنائیں جب منہ زور گھوڑے کا روپ دھارلیں تو قوتِ ارادی کی لگام ہی ان کو روک سکتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو اور تمناؤں کے یہ گھوڑے بِدک جائیں تو پھر بس میں نہیں رہتے۔

اگر بیرم خان کی زندگی پر ایک تفصیلی نظر ڈالی جائے تو اس کے لیے خون بہا دینا بالکل ایسا تھا جیسے کسی پرندے پر چھری چلا کر چھوڑ دیا جائے۔ اکبر کو بیرم کی یہ بے سبب انسان اور جانوروں کو تلوار سے کاٹ دینے کی عادت کبھی اچھی نہ لگی۔ کئی بار اس نے دبے لفظوں میں بیرم کو سمجھانے کی کوشش بھی کی مگر انتباہ کے یہ الفاظ اس کے کانوں تک تو ضرور پہنچے مگر شعور تک نہ پہنچ سکے اور وہ وقت آن پہنچا جس کو ہم ’مکافات‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ پاداش کا ذائقہ ہے جو ہر کسی کو چکھنا پڑتا ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ وہ ذائقہ قند کی طرح شیریں ہو یا پیٹ میں گھستی کٹار کی طرح کڑوا اور عذاب دینے والا ہو۔


حوالہ جات

۔’مآثر رحیمی‘ ۔ عبدالباقی نہاوندی ۔ الفیصل ناشران، لاہور

۔ ’تزک بابری‘ ۔ رشید احمد ندوی ۔ علم و عرفان پبلشر، لاہور

۔ ’نگری نگری پھرا مسافر‘ ۔ ابوبکر شیخ ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور

۔ ’ہمایوں نامہ‘ ۔ گلبدن بیگم ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور

۔ ’تزک تیموری‘ ۔ سید ابوالہاشم ندوی ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور

Akber – Colonel G.B. Malleson- Oxford- 1899 -


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔