پاکستان میں منظم دہشت گردوں کا کوئی اسٹرکچر موجود نہیں، ترجمان پاک فوج

اپ ڈیٹ 11 جنوری 2021
ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا بریفنگ دی—فوٹو: ڈان نیوز
ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا بریفنگ دی—فوٹو: ڈان نیوز

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ پاکستان میں منظم دہشت گردوں کا کوئی اسٹرکچر موجود نہیں ہے۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس کا مقصد ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال کے ساتھ ساتھ تقریباً ایک دہائی کے سیکیورٹی چیلنجز کا جائزہ اور دیگر اہم امور پر آپ کو آگاہی دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سال ہر لحاظ سے پاکستان کے لیے بہت چیلنجنگ وقت تھا، صرف 2020 میں ہی سیکیورٹی چیلنجز کے علاوہ ٹڈی دل اور کووڈ 19 جیسی وبا نے پاکستان کی معیشت اور خوراک کے تحفظ کو بھی خطرے میں ڈالے رکھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ گزشتہ دہائی میں ایک طرف مشرقی سرحد اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی شر انگیزی جاری تھی تو دوسری طرف مغربی سرحد پر کالعدم دہشت گرد تنظیموں کا جوڑ توڑ اور ان کی پشت پناہی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا تھا، اس تمام چیلنجز کے باوجود ریاست، تمام قومی اداروں، افواج پاکستان، انٹیلی جنس ایجنسیز اور سب سے اہم پاکستانی عوام نے متحد ہوکر ان مشکلات کا مقابلہ کیا اور بحیثیت قوم اللہ نے ہمیں سرخرو کیا۔

انہوں نے کہا کہ مغربی سرحد پر قبائلی اضلاع میں امن و امان کی بحالی کے ساتھ ساتھ سماجی معاشی منصوبوں کا آغاز کیا جاچکا ہے، پاک افغان اور پاک ایران سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے مربوط اقدامات کیے گئے، دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشن سے سیکیورٹی کی صورتحال بہت بہتر ہوئی۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ بھارت کے مذموم عزائم ہوں یا پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وارفیئر کی ایپلی کیشن، خطرات اندرونی ہوں یا بیرونی، ہم نے ہمیشہ ثبوتوں اور حقائق کے ذریعے ان کی نشاندہی کی اور کامیابی سے ان کا مقابلہ کیا اور اس کو اب دنیا بھی مان رہی ہے کیونکہ سچ ہمیشہ غالب آتا ہے۔

سیکیورٹی اقدامات اور آپریشن ردالفساد

سیکیورٹی سے متعلق کیے گئے اقدامات پر انہوں نے بتایا کہ آپریشن رد الفساد میں دہشت گردوں کی سپورٹ بیس، سہولت کاروں اور غیرقانونی اسلحہ و بارود کا بڑی حد تک خاتمہ کیا گیا، پاکستان میں کوئی بھی منظم دہشت گردوں کا اسٹرکچر موجود نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ آپریشن ردالفساد کے تحت 3 لاکھ 71 ہزار سے زیادہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیے گئے، 72 ہزار سے زائد اسلحہ، 50 لاکھ امیونیشن اور ساڑھے 4 سو ٹن بارود برآمد کیا گیا.

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کامیابی کو اگر دیکھا جائے تو 2007 اور 2008 میں قبائلی اضلاع پر صرف 37 فیصد علاقے میں ریاستی عملداری رہ چکی تھی، آج تمام قبائلی اضلاع مکمل طور پر خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں، دہشت گردی کے بڑے واقعات میں 2019 کی نسبت 2020 میں 45 فیصد کمی آئی، مزید یہ کہ 2013 میں سالانہ اوسطا 90 حملے تھے جو آج گھٹ کر 13 پر آ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ سال ملک بھر میں 50 فیصد سے زائد دہشت گردی کے خطرات کو ناکام بنایا، مزید یہ گزشتہ 2 دہائیوں میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں میں 2013 میں یہ تعداد 414 تھا جبکہ 2020 میں یہ 98 ہے جو نمایاں کمی ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ 2020 میں خودکش حملوں میں 97 فیصد واضح کمی آئی ہے، مزید یہ کہ کراچی جو آبادی کے حساب سے دنیا کے بڑے شہروں میں 12ویں نمبر پر ہے جبکہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہ 2014 میں کرائم انڈیکس میں چھٹے نمبر پر تھا جو 2020 میں 103 نمبر پر آچکا ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے بڑے بڑے دارالحکومتوں سے بہتر امن و امان کی صورتحال ہے۔

کراچی سے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہاں دہشتگردی میں 95 فیصد، ٹارگٹ کلنگ مین 98 فیصد، بھتہ خوری میں 99 فیصد جبکہ اغوا برائے تاوان کے واقعات میں 98 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

مغربی سرحد

مغربی سرحد سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ وہاں امن و امان کی صورتحال میں بہت بہتری لائی گئی ہے، 2611 کلومیٹر پر 83 فیصد کام مکمل کرلیا ہے جو سال کے وسط تک مکمل ہوجائے گا، اس کے علاوہ پاکستان-ایران سرحد پر 37 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے اور اُمید ہے کہ اگلے ایک سال تک یہ بھی پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ہزار 68 پلانٹ فورٹس میں سے 482 سے زائد تعمیر کیے جاچکے ہیں، بارڈر ٹرمنل کے ذریعے نقل و حرکت میں 33 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، اس کے علاوہ انسداد منشیات آپریشن اور نوٹیفائیڈ کراسنگ سے نقل و حرکت کے نتیجے میں صرف 6 ماہ میں 48 ارب کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے، جس میں کسٹمز کا کردار بھی قابل ستائش ہے۔

بھارت اور ایل او سی

بھارت اور لائن آف کنٹرول سے متعلق انہوں نے کہا کہ مشرقی سرحد بالخصوص ایل او سی پر بھارت کی اشتعال انگیزی میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا ہے، گزشتہ برس 3 ہزار 97 جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی جس میں 28 معصوم افراد شہید اور 257 زخمی ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ 2014 سے 2020 میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، 2019 میں سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوئیں جبکہ 2018 میں سب سے زیادہ سویلین اموات 377 ہوئیں تاہم پاکستان نے بھارتی خلاف ورزیوں کا بھرپور جواب دیا ہے جس کے نتیجے میں انہیں بھاری جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا۔

مزید پڑھیں: کورونا کے خلاف بہترین دفاع آئسولیشن سے زیادہ باہمی تعاون ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کائنیٹک خطرے کے بعد بھارت نے نان کائنیٹک ڈومین یعنی ففتھ جنریشن اور ہابرڈ وار فیئر کا سہارا لیا، اس خطرے کے حوالے سے آرمی چیف نے گاہے بگاہی بات چیت بھی کی اور وقتاً فوقتاً ہم اس سے آگاہ بھی کرتے رہے، بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے ثبوت ایک ڈوزیئر کی صورت میں دنیا کے سامنے لائے گئے، اس کے علاوہ حال ہی میں ای یو ڈس انفارمیشن لیب رپورٹ کے نتیجے میں ناقابل تردید شواہد سامنے آچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی اگر اس ڈس انفارمیشن مہم کی جانچ سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ گزشتہ 2 دہائیوں میں پاکستان اور بھارت کن معاملات میں مصروف تھے، گزشتہ 20 برسوں کے دوران پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی اور ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیا، کائنیٹک ڈومین میں 1200 سے زائد آپریشن میں ہر قسم کی دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کیا گیا، 18 ہزار سے زائد دہشتگردوں کا قلع قمع کیا گیا، لیگل اور لا فیئر ڈومین میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہ صرف قانون سازی کی گئی بلکہ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کی گئی۔

ترجمان نے کہا کہ بین الاقوامی امن کی کاوشوں کے لیے 1100 سے زائد القاعدہ کے دہشت گردوں کو پکڑا یا مارا گیا، 70 سے زائد ممالک کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کی اور اس دوران پاکستان نے 83 ہزار سے زائد قربانیاں دیں اور 126 ارب ڈالر کا معاشی نقصان بھی اٹھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس اگر دیکھیں تو بھارت نے مشرقی سرحد پر اشتعال انگیزی میں اضافہ کیا، مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے تاریخ کا بدترین محاصرہ اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں جاری ہیں جبکہ فروری 2019 میں پاکستان کے خلاف جارحیت کی ناکام کوشش بھی کی، ان تمام واقعات کے شواہد عالمی اداروں نے دنیا کے سامنے رکھ دیے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ فنانشل کرائم انفورسمنٹ نیٹ ورک، بھارت کے 44 بینکوں کی منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ، یو این ایچ آر سی اور جینوسائڈ واچ کی جانب سے بھارت کی بدترین ریاستی دہشتگردی اور انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق چشم کشا انکشافات سامنے آچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ تمام جعلی نیٹ ورک کو دہلی سے تعلق رکھنے والا شریواستو گروپ چلا رہا تھا جو تھنک ٹینک اور جعلی این جی اوز اور جعلی میڈیا ہاؤسز کے ذریعے اس مجرمانہ کارروائیوں کو 15 سال سے جاری رکھا ہوا تھا، جس میں جعلی میڈیا گروپ بھی شامل تھے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ان جعلی این جی اوز کے ذریعے یو این ایچ سی آر میں پاکستان مخالف پروگرام اور مظاہرے منعقد کروانا اور پاکستان کی ساکھ کو مواد کے ذریعے متاثر کرنا شامل تھا، اس مواد کو جعلی میڈیا کے ذریعے شائع کیا جاتا تھا جبکہ اسے بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی کے ذریعے دیگر تمام جعلی میڈیا پر وائرل کیا جاتا تھا، مزید یہ کہ اسے بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک اصلی اسٹوری کے ذریعے لیا جارہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں را سے تعلق رکھنے والی ایک اگلایا کمپنی جو سائبر انٹیلی جنس اور ہیکنگ میں مہارت رکھتی ہے، ای یو ڈس انفو لیب کے جائزے کے مطابق حقیقت میں یہ این جی او کسی اور مقصد کے لیے رجسٹرڈ کروائی گئی تھی لیکن انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کیا جارہا تھا۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ اس 15 سالہ مہم کا جائزہ لیں تو پاکستان کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا گیا، 6 مختلف ڈومین دہشت گردی، معیشت، ڈپلومیٹک، افراتفری، کشمیر اور سماجی مسائل میں پاکستان کو ہدف بنایا گیا۔

ان 6 میں سے 2 کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر کے محاذ پر ایک طرف بھارتی جارحیت کو چھپایا گیا اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حوالے سے بےتحاشہ جعلی مواد اور کشمیریوں کے حق میں بہتر قرار دینے کی کوشش کی گئی، یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کو ذاتی حیثیت میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرایا گیا تاہم انہیں ای یو کا آفیشل نمائندہ ظاہر کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر لابی کرنے والا بھارتی نیٹ ورک بے نقاب

اسی طرح انہوں نے بتایا کہ سماجی مسائل میں اقلیتوں اور خواتین سے متعلق ای یو کرانکلس کے ذریعے جھوٹا پروپیگینڈا کیا گیا اور اس کی بنیاد پر ای یو پارلیمنٹ میں پاکستان مخالف قرار داد پیش کی گئی، اس تمام عمل میں پاکستان کی عالمی تصویر کو نقصان پہنچایا گیا اور اقوام متحدہ اور ای یو جیسے معتبر اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی اور پاکستان مخالف ایجنڈے کو فروغ دیا گیا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈس انفو لیب کی رپورٹ کے مطابق ان اثرات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک میں سے 6 کی اسکیل میں یہ 6 حاصل کرتی ہے جو پروپیگینڈے کی سب سے اونچی سطح ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب بھارتی ریاست کی پشت پناہی پر کیا جارہا تھا۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ترقیاتی منصوبے

خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے سے متعلق انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان جو خاص طور پر دہشت گردی کا شکار رہے، وہاں اب ترقیاتی منصوبے جاری ہیں، بلوچستان میں کچھ عرصے سے ملک دشمن قوتیں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی در پر ہیں تاہم پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ان عزائم کو ناکام بنانے کے لیے شب و روز مصروف ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’کلیئر اینڈ ہولڈ‘ کے مراحل سے گزرتے ہوئے اب ہم ’بلڈ اینڈ ٹرانسفر‘ کے مراحل کی طرف گامزن ہے، اسی سلسلے میں بلوچستان میں 601 ارب روپے کی لاگت کے 199 ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا چکا ہے، جس میں صحت کے 10، تعلیم کے 18، زراعت کے 20 اور ٹرانسپورٹ کے 42 اہم منصوبے شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں 31 ارب روپے کی لاگت سے 883 ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوچکا ہے، جس میں تعلیم کے 268، صحت کے 70، کمیونکیشن انفرااسٹرکچر کے 15، آب پاشی کے 30 بڑے منصوبے شامل ہیں۔

کورونا وائرس

دوران بریفنگ کورونا وائرس سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہم نے بطور قوم اس چیلنج کا حکمت اور دانش مندی سے مقابلہ کیا، پاکستان نے اپنے محدود وسائل کے باوجود این سی سی کے ماتحت این سی او سی کے ذریعے بھرپور ردعمل دیا جس کا اعتراف دنیا کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ڈاکٹرز، پیرامیڈکس، ہیلتھ ورکرز اور وہ تمام ادارے اور افراد جو اس وبا کے خلاف نبرد آزما ہیں وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

پاکستانی میڈیا

پاکستانی میڈیا کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا نے اس وبا کے دوران عوام کی آگاہی کےلیے اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر خدمت کی اور عظیم مثال قائم کی۔

مزید یہ پاکستانی میڈیا نے جس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ بھارتی پروپیگینڈے اور پاکستان کو درپیش خطرات کو بےنقاب کیا اس کے لیے بھی پاکستانی میڈیا مبارک باد کا مستحق ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ دشمن قوتیں ہمیں ناکام اور تقسیم کرنے کے درپے ہیں، ہماری منزل ایک ہے اور پاکستان کو کامیاب بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

سوال و جواب

اس موقع پر سوالات کے سیشن میں بلوچستان اور سابق فاٹا میں دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ڈی جی آئیس ایس پی آر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے واقعات میں مستقل کمی کا رجحان ہے، پہلے ہماری توجہ سابقہ فاٹا پر تھی، ہم نے اسے کلیئر کردیا ہے اور تمام اہم آپریشنز وہاں مکمل ہو چکے ہیں، وہاں کوئی انچ بھی ایسا نہیں ہے جہاں اسٹیٹ کی رٹ نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران ہم نے اپنی توجہ بلوچستان کی جانب موڑ دی ہے، بلوچستان میں سیکیورٹی ماحول اور خطرات کے حوالے سے ہم نے ایک ڈوزیئر پیش کیا تھا، اس ڈوزیئر میں اہم ہدف بلوچستان اور وہاں سے گزرنے والا اہم منصوبہ سی پیک تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان کا 40 فیصد اور بہت بڑا علاقہ ہے، اس کی سیکیورٹی کو مربوط کرنے کے لیے بہت وسائل چاہئیں، ہم نے اس مد میں بلوچستان کی ایف سی کی استعداد میں اضافہ کیا ہے، پہلے پورے بلوچستان کو ایک ایف سی دیکھ رہا تھا لیکن اب دو ایف سی نارتھ اور ایف سی ساؤتھ بنا دی گئی ہیں۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سی پیک کے منصوبوں کے لیے ایک نیا سیکیورٹی ڈویژن بنا دیا گیا ہے جو گوادر میں ہے اور ساتھ میں ساحلی پٹی کی سیکیورٹی کو بھی دیکھ رہا ہے، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ہم لگاتار خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر آپریشنز کررہے ہیں، خطرات ہیں، ابھی بھی مسائل ختم نہیں ہوئے لیکن چیزیں کنٹرول ہیں۔

مزید پڑھیں: محمد زبیر نے نواز شریف،مریم نواز سے متعلق آرمی چیف سے دو ملاقاتیں کیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان جتنا بڑا صوبہ ہے تو وہاں ہر جگہ نفری کھڑی کرنا ممکن نہیں ہے، علاقوں کی سیکیورٹی کو مضبوط کیا جا رہا ہے اور حالات میں مزید بہتری آئے گی، ہم یقینی بنائیں گے کہ بلوچستان محفوظ ہو کیونکہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے۔

اسی دوران آرمی چیف کے دورہ بلوچستان سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آرمی چیف اسی ہفتے کے دوران کوئٹہ کا دورہ کریں گے۔

فوج کے خلاف بیانیے کے حوالے سے سوال کے جواب میں پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ اگر آپ تنقید یا نام نہاد الزامات کی بات کررہے ہیں تو فوج اپنا کام کررہی ہے، فوج اپنی قربانیاں بھی دے رہی ہے، ہم ان پر ردعمل کیوں نہیں دے رہے تو الزامات میں اگر کوئی حقیقت ہو تو ردعمل دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بہت مصروف ہیں، ہم ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہتے ہیں نہ پڑیں گے، فوج کا جو اپنا کام ہے وہ کرتی رہے گی، کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے اور پوری فوج اور شہدا کے اہلخانہ کا مورال بہت بلند ہے۔

پاک افغان سرحد پر باڑ سے متعلق سوال پر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ فوج نے خود نہیں لگائی ہے بلکہ یہ حکومت پاکستان کے احکامات پر پاکستان- افغانستان کی عالمی سرحد پر لگائی گئی ہے، یہ پاکستان کے عوام کی سیکیورٹی کے لیے لگائی گئی ہے اور اس کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ باڑ لگانے میں بھی ہم نے کئی قربانیاں دی ہیں، اس باڑ کو لگانا کوئی عام بات نہیں تھی، ہم نے یہ باڑ اپنے فوجیوں کے خون اور پسینے کی بدولت لگائی ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس باڑ کو اکھاڑ سکے۔

مولانا فضل الرحمٰن کے اعلان کے حوالے سے سوال کے جواب میں مجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ’مجھے ان کے پنڈی آنے کی کوئی وجہ نظر آنہیں آتی، اگر وہ آئیں گے تو ان کو چائے، پانی پلائیں گے، ان کا خیال رکھیں گے‘۔

بھارت کی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان فوج نے بھارتی اشتعال انگیزیوں کا ہمیشہ بھرپور طریقے سے جواب دیا ہے اور ہم جواب دیتے رہیں، وہ جو کچھ بھی کریں گے ہم اس کے لیے مکمل تیار ہیں اور وہ بھی اس بات کو جانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت اپنے مورال کو اوپر رکھنے کے لیے اس طرح کی باتیں کرتا رہتا ہے، ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہماری صلاحیت کیا ہے اور ہم ان کے ارادے بھی سمجھتے ہیں، ہم اس کے لیے تیار ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت شہری آبادی کو بہت زیادہ نشانہ بنا رہا ہے، ہمارا جواب ہمیشہ ان کے فوجی اہداف ہوتے ہیں لیکن وہ شہریوں، عورتوں، بچوں اور بزرگوں تک کو نشانہ بناتے ہیں حتیٰ کہ جانوروں کو بھی نشانہ بناتے ہیں، حکومت پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر رہنے والوں کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز مختص کیے ہیں، ہر گھر میں ان کو حفاظتی بنکرز بنا کر دیے جارہے ہیں اور اسی طرح ہم نے اپنے دفاعی مرچوں کو بھی پہلے سے بہت بہتر کیا ہے، ان اقدامات کے بعد اُمید ہے کہ ہماری شہریوں کی اموات اور زخمی ہونے میں نمایاں کمی آئے گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ڈوزیئر سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اور وہ زمینی حقائق پر مبنی ہے، دنیا کے مختلف ممالک اور آرگنائزیشنز کو دفتر خارجہ کے ذریعے اسے پہنچا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ اس کو بہت سنجیدگی سے لیا گیا ہے، اس ڈوزیئر کی بات ہی چل رہی تھی کہ ای یو ڈس انفورمیشن لیب کی رپورٹ آگئی جو پاکستان نے تیار نہیں کرائی بلکہ ایک بین الاقوامی معیار کے تیسرے فریق نے تیار کی ہے جس میں واضح ثبوت سانے رکھ دیے گئے ہیں لہٰذا دنیا اس بارےمیں بات کررہی ہے، بھارت جتنا مرضی انکار کرنا چاہے لیکن اب ممکن نہیں ہے، صورتحال تبدیل ہورہی ہے یہاں تک کہ بین الاقوامی میڈیا میں بھارت سے متعلق ٹکرز بھی تبدیل ہوگئے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ زمین پر کوئی منظم دہشت گرد گروہ موجود نہیں ہے، باڑ بھی ابھی پوری نہیں لگی ہے، لہٰذا کبھی کبھی کچھ مقامات سے کچھ لوگ آجاتے ہیں لیکن وہ وہاں رہ نہیں سکتے۔

علاقے میں داعش کی موجودگی کے حوالے پر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ہم نے ڈوزیئر میں بھی اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ داعش کا پاکستان کا دھڑا بنانے اور اس کے ذریعے سرگرمیاں منعقد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ یہ موجودگی زیادہ نہیں ہے، وہ کوشش کررہے ہیں، مختلف آرگنائزیشنز کے باغی گروپ ان کا نام استعمال کررہے ہیں تاکہ کچھ ساکھ بنا سکیں لیکن وہ یہاں مسقل قدم نہیں جما سکیں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم سرکاری اور عسکری سطح پر افغانستان اور ایران سے رابطے میں ہیں، افغانستان میں داعش موجود ہے جسے را کی معاونت حاصل ہے جس کے بہت سے ثبوت موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے افغان حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے، ان سے رابطے میں ہیں اور دونوں طرف رویہ بہت مثبت ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ کچھ استعدادی صلاحیت کے مسئلے ہیں لہٰذا جب کبھی بھی افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا تو ہم نے ہمیشہ افغان حکومت کو اس کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا کیونکہ ان کی سیکیورٹی کی اتنی صلاحیت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی نیٹ ورک کا جعلی نیوز ویب سائٹس کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بنانے کا انکشاف

چند دن میں امریکی قیادت کی تبدیلی کے حوالے سے سوال پر پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات پر میں زیادہ بات نہیں کروں گا، وہ وزارت خارجہ کی حدود میں آتی ہے جہاں تک دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان روابط کا تعلق ہے تو وہ جاری ہے اور ہم اس حوالے سے بہت پرامید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس قسم کے دفاعی اخراجات بھارت کررہا ہے، وہ جس سمت میں جا رہے ہیں اور جو ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، عالمی برادری کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنوبی ایشیا میں روایتی توازن بہت اہم ہے، اگر یہ توازن بگڑا تو چیزیں دوسرے جانب چلی جائیں گی، جو کوئی برداشت نہیں کرسکتا، لہٰذا عالمی برادری کی اس حوالے سے آگاہی ضروری ہے۔

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی قیادت کی جانب سے فوج کو دھمکی اور سلیکٹر کہنے کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے تشویش ہے، جس نوعیت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں ان میں کوئی وزن نہیں ہے، الیکشن کی بات کی جاتی ہے تو پاکستان فوج کو حکومت وقت نے الیکشن کرانے کا کہا، پاک فوج نے اپنی پوری ذمہ داری اور دیانتداری کے ساتھ وہ الیکشن کرائے، اس کے بعد اگر کسی کو کوئی شک ہے تو پاکستان کے تمام ادارے اپنا کام کررہے ہیں اور انہی سے اس سلسلے میں رابطہ کیا جانا چاہیے اور اس طرح کی باتیں اچھی بات نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے اور جو بھی بات چیت اس ضمن میں کی گئی ہے حکومت پاکستان نے اس کا بہت اچھے طریقے سے جواب دیا ہے اور اس سے نمٹ بھی رہی ہے، فوج کو نہ سیاسی معاملات میں آنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اپوزیشن سے کوئی بیک ڈور رابطوں سے متعلق سوال پر کہا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، ہم اس سے دور رہنا چاہتے ہیں اور دور ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں