اپوزیشن کے این آر او کی رقم قوم کو ادا کرنی پڑ رہی ہے، حماد اظہر

اپ ڈیٹ 18 جنوری 2021
پنجاب میں 20 کلو آٹے کی بوری 860 روپے اور سندھ میں 1100 روپے کی ہے، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار - فائل فوٹو:پی آئی ڈی
پنجاب میں 20 کلو آٹے کی بوری 860 روپے اور سندھ میں 1100 روپے کی ہے، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار - فائل فوٹو:پی آئی ڈی

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں 20 کلو آٹے کی بوری 860 روپے اور سندھ میں 1100 روپے کی ہے۔

سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج سب سے مہنگا آٹا سندھ میں فروخت ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آٹے کا بحران آیا تو حکومتوں نے خریداری کی تاہم خریداری ہی سے سب کچھ نہیں ہوتا، اکتوبر نومبر تک سندھ نے خریدا ہوا 12 لاکھ ٹن کا آٹا جاری کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے وہاں قیمت زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ '2017 میں گنے کی سپورٹ پرائز 170 روپے تھی اور کسان کو 130 یا 140 سے زیادہ نہیں ملتے تھے اور شوگر ملز کے آگے وفاقی سیکریٹریز کانپتے تھے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پہلی مرتبہ کسانوں کو کم از کم سپورٹ پرائز سے زیادہ 230 سے 250 روپے تک مل رہا ہے، چینی کی قیمت بڑھنے پر کام کر رہے ہیں اور ای سی سی کے اجلاس میں 5 لاکھ ٹن چینی در آمد کرنے کی درخواست کی ہے'۔

مزید پڑھیں: گیس بحران پر نیپرا کی انکوائری کمیٹی مسترد کرتے ہیں، شیری رحمٰن

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'پیٹرول پر کہا گیا کہ کوئی نئی لیوی لگائی گئی ہے، ہم نے ایک روپیہ نہیں بڑھایا، ہمسایہ ممالک میں دیکھ لیں کہ ہمارے ٹیکسز زیادہ ہیں یا ہمسایہ ممالک کے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کہا گیا کہ 40 سے 45 فیصد قرضے بڑھا دیے، مسلم لیگ (ن) کے بیرونی قرضوں کی رفتار سے اس وقت کافی کم ہیں، ہم نے 16 ارب ڈالر کے قرضے نہیں لیے، اس سال بیرونی قرضوں میں 4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا جو 5 یا 6 سال کی کم ترین سطح کا اضافہ ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ 'کہتے ہیں قرضوں کا حجم بڑھ گیا، یہ کوئی نئے قرضے نہیں یہ روپے کی قدر کو گرنے سے روکنے پر 40 فیصد قرضے بڑھے، باقی 60 فیصد میں سے اکثر وہ رقم ہے جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قرضوں پر سود کو پورا کرنے کے لیے لیے گئے'۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ 'اگر ان کے لیے ہوے قرضوں پر ہمیں سود نہ دینا پڑے تو آج ہماری وفاقی حکومت کے اخراجات آمدن سے کم ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کہتے ہیں بے روزگاری میں اضافہ ہوا، حقیقت میں کورونا وائرس کے دوران ہونے والی بے روزگاری کو ہم نے وی شیپ میں بحال کی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اجلاس میں براڈ شیٹ اور نیب پر بات کی جاتی ہے، یہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے این آر او کی رقم ہے کیونکہ براڈ شیٹ کا معاہدہ یہ تھا کہ وہ جتنی رقم سامنے لائیں گے وہ اس کا 20 فیصد حاصل کریں گے، براڈ شیٹ نے 10 کروڑ ڈالرز کی جائیدادیں ثابت کیں جس کے بعد انہوں نے این آر او کرلیا اور قوم کو اس کی رقم ادا کرنی پڑ رہی ہے'۔

اب نیب کے ہر افسر کا میڈیا ٹرائل ہوگا، سلیم مانڈوی والا

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے سینیٹ میں خطاب کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کو ایک مرتبہ پھر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ 'میں برگیڈیئر (ر) اسد منیر کے گھر گیا تھا جہاں ان کی بیٹی اور بیوہ سے ملاقات کی، جس طرح سے وہ روئیں اور اپنا حال بیان کیا، اس کو دیکھ پر میں نے اپنے جذبات پر مشکل سے قابو کرلیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'جو اعداد وشمار آئے ہیں اس کے مابق نیب کی حراست میں ہلاکتوں کے مقابلے میں خود کشیاں زیادہ ہوئی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اسد منیر فوج میں برگیڈیئر تھے اور ستارہ امتیاز تھے، وہ پہلی مرتبہ خود کشی میں بچ گئے تھے، انہوں نے اپنے گھر میں کو خود کو گولی ماری نہیں گولی نہیں چلی اور بچ گئے لیکن دوسری خودکشی میں انہوں نے خود کو لٹکایا'۔

سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ انہوں نے نیب کے دوران سامنے آنے والے حالات سے آگاہ کیا، حکومت اور نیب دونوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور ان چیزوں کو روکنا چاہیے۔

نیب پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'لوگوں کی پگڑیاں نہ اچھالیں، ہم سیاست دانوں کی پگڑیاں روزانہ اچھالی جاتی ہیں، ہم اس کا مقابلہ بھی کریں گے مگر لوگ برداشت نہیں کر سکتے اور خود کشی کر رہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'لوگ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں اور پریشان ہیں کہ نیب کسی وقت بھی ہماری خبر چلا دے گی اور ہمارا نوٹس نیوز پر چلے گا، یہ معاملہ ختم نہیں ہورہا ہے بلکہ بڑھتا جا رہاہے، اس لیے حکومتی عہدیداروں سے کہوں گا کہ اس معاملے پر سنجیدہ غور کریں اور اس کو جلداز جلد ختم کردیں'۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ 'اخبار میں آیا ہے کہ نیب کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے، یہ ایک دلچسپ بات ہے کیونکہ آج تک لوگوں کا میڈیا ٹرائل ہو رہا تھا اب نیب کا میڈیا ٹرائل شروع ہوگیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'آج میں کھڑا ہوں اور بھی 10، 50 اور 100 لوگ اس میڈیا ٹرائل میں شریک ہوں گے اور یہ میڈیا ٹرائل بڑھتا رہے گا کم نہیں ہوگا'۔

سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ 'اب یہ بھول جائیں کہ صرف لوگوں کا میڈیا ٹرائل ہوگا، اب نیب کا ٹرائل ہوگا، نیب کے ہر افسر کا ٹرائل ہوگا اور نیب کے ہر افسر کا نام لے کر ہم میڈیا میں ٹرائل کریں گے اور باقی چیزیں بعد میں دیکھیں گے کیا ہوتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ فیک اکاؤنٹ کی بڑی بات ہوتی ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا نیب نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے، کسی بینک میں کوئی اکاؤنٹ کیسے ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اکاؤنٹ بینک میں کھل جاتا ہے تو حقیقی ہوتا ہے سوائے دوسرا کچھ ثابت ہو، آج تک ایک بھی فیک اکاؤنٹ ثابت نہیں ہوئی۔

جعلی اکاؤنٹ کیسز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی ایک ڈراما ہے جو چلے جارہا ہے، نام نہاد ٹرائل اور سپریم کورٹ کو بھی سراسر جھوٹ بولا جارہاہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ کے ایک جج نے اعتراف کرلیا ہے اور باقی بھی اعتراف کریں گے کہ ہمیں ٹرک کے پیچھے لگایا ہوا اور ہمیں سمجھ نہیں آرہی ہم نے کرنا کیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کیسے بلیک میل ہوتے ہیں اس بارے میں ایوان کو بتاؤں گا، ایک خاتون کی ویڈیو آئی تھی اور اس خاتون کے ذریعے چیئرمین نیب کو بلیک میل کیا جا رہاہے۔

سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ 'میں حکومت سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ انہیں کون بلیک میل کر رہا ہے اور ان سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیوں ڈر رہے ہیں ہماری سینیٹ اور پوری پارلیمنٹ موجود ہے، آپ آئیں اور ہمیں بتائیں کون بلیک میل کر رہا ہے، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'آپ نے ساری عمر چیئرمین نیب نہیں رہنا، ایک دن اترنا ہے پھر کون آپ کے ساتھ کھڑا ہوگا ، پھر آپ صحیح طریقے سے بلیک میل نہ ہوں اور اس سے بچیں'۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ 'میں نے خود ریکارڈنگ اور پیغامات اپنے کانوں سے سنے اور آنکھوں سے دیکھی ہیں پھر بات کر رہا ہوں، میں کوئی ہوائی بات نہیں کر رہا، جب وقت آئے گا تو یہ لوگ بھی سامنے آئیں گے اگر نہیں آئیں تو بہت ہی خطرناک تصویر سامنے آئے گی'۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کو کہنا ہوگا کہ بہت ہوگیا، میں مزید بلیک میل نہیں ہوں گا۔

نیب کی تحویل میں دو ہلاکتیں ہوئیں، شہزاد اکبر

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نیب کی ریمانڈ میں دو ہلاکتیں ہوئی ہیں جس کی تحقیقات کی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2004 میں سجاد صاحب اور 2014 میں رزاق بھٹی انتقال کر گئے تھے اور تاثر دینا کہ ابھی یا حالیہ دور میں کچھ ہوا ہے وہ غلط ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ برگیڈیئر اسد منیر کی خود کشی کو نیب سے منصوب کرنا جنرل بیان ہوسکتا ہے اور ان کی خود کشی کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ 'نیب کی تحویل میں دو ہلاکتیں 2004 اور 2014 میں ہوئیں لیکن وہ اموات اب آکر متعلقہ کیوں ہوجاتی ہیں، اس چیز کو دیکھنا بڑا ضروری ہے، کیا اس لیے متعلقہ ہے کہ ایک رکن کو نوٹس ملا یا ریفرنس دائر ہوا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ براڈ شیٹ کا معاملہ سامنے آیا تو وزیراعظم نے ہدایات دیں کہ براڈ شیٹ کے وکلا سے رابطہ کریں اور اس کو جاری کیا جائے، جب ان منظوری آئی تو تینوں حکم ناموں کو جاری کر دیا گیا ہے۔

حکومت نے غلط ادارے کو ادائیگی کی, شیری رحمٰن

اس سے قبل ایوان میں بات کرتے ہوئے شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایک حصہ فیس کی ادائیگی کی مگر کسی غلط ادارے کو، اس پر انکوائری ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے سے 4 گنا زیادہ قرضے لیے ہیں، وہ قرضے کہاں جارہے ہیں، کون مقدس گائے ہے'۔

انہوں نے کہا کہ کاوے موسوی صاحب جو بار بار بات کر رہے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ میں نے ایک ارب ڈالر کی لانڈرنگ کرنے والے کا نام شہزاد اکبر کو دے دیا ہے، موجودہ نیب اس پر جانچ پڑتال کر رہی ہے اس کی بات تک نہیں کی جارہی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا نیب سے متعلق حقائق ایوان بالا میں پیش کرنے کا اعلان

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ 'یہاں بات شروع کی جانی چاہیے، ہم کیسز ہار رہے ہیں اور عوام کے پیسے ضائع ہو رہے ہیں، آپ بڑی بڑی پارٹیوں کو توڑیں، انہیں این آر او دیں اور باقی لوگوں کو نیب گردی میں پھنسائیں تو اس پر سوال کیوں نہیں اٹھے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کورونا کے لیے 70 ارب ڈالر مختص کیے گئے تھے، وہ کہاں گئے ہیں، ملک میں نہ ایل این جی آرہی ہے نہ ویکسین، 16 ارب ڈالر کا حکومت نے رواں سال ہی قرضہ لیا، 35 کھرب کا اب تک قرض لے چکی ہے اور اب تمام ریڈ لائن عبور کرچکے ہیں جس سے عوام کی قوت خرید متاثر ہورہی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کا کرایہ تک نہیں دیا گیا، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، اگر لیز کی ادائیگی نہیں ہو تو عدالت میں نہیں جایا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب ایئرلائنز کو گرادیا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ کس کے لیے ہورہا ہے، یہ اس قدر نااہلی ہے کہ لگتا ہے کہ کہیں کوئی سازش تو نہیں، اور پھر کوئی سوال تک نہیں ہوتا'۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر کا کہنا تھا کہ جو حکومت 40 سے 45 فیصد قرضہ چڑھا رہی ہے وہ اس پیسوں کا کر کیا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پورے اجلاس میں انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، کہا جاتا ہے کہ ہم نے اتنے قرضے اس لیے لیے کیونکہ پچھلی حکومت نے اتنے قرضے لیے تھے۔

بعد ازاں جب چیئرمین سینیٹ نے حماد اظہر کو جواب کا موقع دیا تھا تو مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید نے کہا تھا کہ جو طریقہ واردات شینیٹ اختیار کیا گیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

چیئرمین سینیٹ نے واردات کا لفظ ہذف کردیا تو پرویز رشید نے کہا کہ یہ طریقہ کبھی اختیار نہیں کیا گیا آپ اپوزیشن کی بات بعد میں سنتے ہیں پہلے وزیر کو بولنے کا حق دیتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں