سینیٹ کمیٹی میں خواتین کے جائیداد کے حقوق ترمیمی بل 2020 کثرت رائے سے منظور

اپ ڈیٹ 19 جنوری 2021
حکام وزارت مذہبی امور کا کہنا تھا کہ عدالتیں 'کیس ٹو کیس' کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
حکام وزارت مذہبی امور کا کہنا تھا کہ عدالتیں 'کیس ٹو کیس' کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے خواتین کے جائیداد کے حقوق سے متعلق انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ترمیمی بل 2020 کو کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

سینٹ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین محمد جاوید عباسی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا جہاں وزارت قانون و انصاف اور وزارت مذہبی امور کے حکام نے شرکت کی۔

مزیدپڑھیں: خواتین کو وراثت میں حق دلوانے کیلئے بل لانے کا فیصلہ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں بچوں کی حوالگی پر وزارت مذہبی امور کے حکام نے اعتراض کیا جبکہ حکومت مخالف تقاریر اور مشیروں کی کابینہ اجلاسوں میں شرکت سے متعلق بلوں کی وزرات قانون و انصاف کے حکام نے مخالفت کی۔

چیئرمین کمیٹی محمد جاوید عباسی نے کہا کہ سینئر وکیل سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا بل بچوں کی ویلفیئر اور حوالگی سے متعلق ہے۔

حکام وزارت مذہبی امور کا کہنا تھا کہ عدالتیں 'کیس ٹو کیس' کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں اس لیے معاملے پر قانون بنانے سے مذہبی مسائل آسکتے ہیں۔

سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ عدالت شرعی اور فقہ کے اصولوں کو دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے اور عدالتوں کو ان معاملات پر صوابدیدی اختیار ہونا چاہیے۔

اجلاس میں حکومت مخالف تقریر سے متعلق سینیٹر رضا ربانی کے بل پر بحث کی گئی۔

چیئرمین کمیٹی جاوید عباسی نے کہا کہ حکومت کے خلاف تقریر پر کیا مقدمات کا اندراج ہونا چاہیے؟ ریاستی اداروں کے خلاف بیان ہو تو الگ بات ہے اس قانون کو ختم کر دیا جائے تو کیا فرق پڑے گا؟ پینل کوڈ تو انگریز کے دور میں بنایا گیا، غداری کا کیس مجھ پر یا کمیٹی کے کسی رکن کے خلاف بن جائے تو کیا عزت رہے گی۔

مزیدپڑھیں: خواتین کے جائیداد کے حقوق سے متعلق کیس میں ڈپٹی کمشنرز سے جواب طلب

رکن کمیٹی بیرسٹر سیف نے کہا کہ اگر قانون کا غلط استعمال ہو تو عدالتیں موجود ہیں، کیا ہر وہ قانون جس کا غلط استعمال ہو وہ ختم کر دینا چاہیے، اب نیب کے قانون پر اعتراض ہوتا ہے کیا اس کو ختم کر دیا جائے۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ90 روز کا ریمانڈ ناانصافی ہے، قتل سے بڑا کوئی مقدمہ نہیں جبکہ قتل کے مقدمہ میں 14 دن کا ریمانڈ ہوتا ہے۔

بعدازاں بل پر بحث اگلے اجلاس تک مؤخر کر دی گئی۔

علاوہ ازیں قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف میں خواتین کا وراثت میں حصہ سے متعلق جاوید عباسی کے بل پر بحث کی گئی۔

کمیٹی نے خواتین کیسز سے متعلق محمد جاوید عباسی کا بل منظور کرلیا۔

مشیروں کے کابینہ اجلاس میں بیٹھنے سے متعلق سراج الحق کے بل کی وزارت قانون نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مشیر صرف رائے دیتے ہیں فیصلہ کابینہ ہی کرتی ہے۔

سینٹر سراج الحق کے بل پر بحث آئیندہ اجلاس تک مؤخر کر دی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں