بائیڈن انتظامیہ میں امریکا اور پاکستان کے عسکری تعلقات کی تجدید کا امکان

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2021
جنرل لائیڈ آسٹن اپنی نامزدگی کی توثیق کے لیے امریکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے — تصویر: اسکرین شاٹ
جنرل لائیڈ آسٹن اپنی نامزدگی کی توثیق کے لیے امریکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے — تصویر: اسکرین شاٹ

واشنگٹن: امریکا کے نامزد دفاعی سربراہ جنرل لائیڈ جے آسٹن نے کہا ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ، پاکستان کو افغانستان کے امن عمل میں ایک ‘ضروری ساتھی' کے طور پر دیکھتی ہے اور 'علاقائی عناصر' کو امن عمل خراب کرنے سے روکنے کے لیے کام بھی کرے گی۔

دوسری جانب ٹونی بلِنکین، جو نئی انتظامیہ میں امریکا کے سفارتی سربراہ ہوں گے، وہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے پر نظر ثانی کرنے کے خواہاں ہیں لیکن واضح کرتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کا شروع کردہ امن عمل جاری رہے گا۔

جنرل لائیڈ جے آسٹن امریکی سینٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ ہیں اور اگر امریکی سینیٹ منظور کردیتی ہے تو وہ نئے سیکریٹری دفاع ہوں گے جبکہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سابق عہدیدار ٹؤنی بلنکین امریکا کے نئے سیکریٹری اسٹیٹ ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: اُمید ہے کہ جو بائیڈن، ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسیاں تبدیل کریں گے، سربراہ عرب لیگ

امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جنرل لائیڈ آسٹن نے کہا کہ 'افغانستان میں کسی بھی امن عمل کے لیے پاکستان ایک انتہائی ضروری ساتھی ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں افغان امن عمل کو بگاڑنے کے لیے کام کرنے والے علاقائی عناصر کو روکتے ہوئے ایک علاقائی اپروچ کی حوصلہ افزائی کروں گا جو پڑوسی ممالک مثلاً پاکستان سے حمایت حاصل کرے۔

جنرل لائیڈ آسٹن سے سوال کیا گیا کہ بحیثیت سیکریٹری دفاع وہ امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کیا تبدیلیاں تجویز کریں گے تو ان کا کہنا تھا کہ میں ہمارے مشترکہ مفادات پر توجہ دوں گا جس میں بین الاقوامی فوجی تعلیم و تربیت فنڈز کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کے فوجی رہنماؤں کی تربیت بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں ہونے والے کسی بھی تصفیے میں اہم کردار ادا کرے گا، ہمیں القاعدہ اور داعش خراسان کو شکست دینے اور علاقائی استحکام کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: 'جوبائیڈن صدارتی تقریب کے پہلے روز مسلم ممالک پر عائد سفری پابندی ختم کردیں گے'

نامزد سیکریٹری دفاع سے سوال کیا گیا کہ چونکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ستمبر 2018 میں پاکستان کو سیکیورٹی امداد روک دی گئی تھی تو کیا انہوں نے امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعاون میں کوئی تبدیلی محسوس کی ہے؟

جس پر جنرل لائیڈ آسٹن نے جواب دیا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نے افغان امن عمل کی حمایت میں امریکی درخواستوں پر عمل کرنے کے لیے تعمیری اقدامات اٹھائے ہیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارت مخالف گروہوں مثلاً لشکرِ طیبہ اور جیش محمد کے خلاف بھی اقدامات اٹھائے حالانکہ ان کی پیش رفت ابھی نامکمل ہے'۔

جنرل لائیڈ آسٹن نے اعتراف کیا کہ 'ہوسکتا ہے سیکیورٹی امداد کی معطلی کے علاوہ بھی کئی پہلو پاکستان کے تعاون پر اثر انداز ہوئے ہوں جس میں افغانستان مذاکرات اور پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی خطرناک کشیدگی شامل ہے'۔

امریکی جنرل سے پوچھا گیا کہ وہ پاکستان پر اثر انداز ہونے کے لیے کیا حربے اور آپشنز استعمال کریں گے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ 'پاکستان ایک خود مختار ملک ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: جو بائیڈن نے ایک اور پاکستانی نژاد امریکی کو اپنی ٹیم کا حصہ بنالیا

ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان پر دباؤ ڈالوں گا کہ وہ اپنی سرزمین کو عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ اور پر تشدد انتہا پسند تنظیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکے، پاکستان کی فوج کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے سے امریکا اور پاکستان کے کلیدی امور پر تعاون کرنے کی راہیں کھلیں گی'۔

دوسری جانب ٹونی بلِنکین سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ وہ امریکا- افغان طالبان امن معاہدے پر نظر ثانی کریں گے کیوں کہ اس ڈیل کے لیے مذاکرات کرنے والی ٹرمپ انتظامیہ کی طرح امریکا کی نئی حکومت بھی افغانستان میں بظاہر نہ ختم ہونے والی جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے۔

ٹونی بلنکین کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم اس نام نہاد طویل جنگ کا خاتمہ کرنا اور اپنی افواج کو واپس لانا چاہتے ہیں، ہم دہشت گردی کی کسی بھی بحالی سے نمٹنے کے لیے کچھ صلاحیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں، جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں بغور یہ دیکھنا ہوگا کہ اصل میں مذاکرات کیا کیے گئے، مجھے ابھی تک اس کا علم نہیں ہے۔

دو نامزد امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر غور کرنے کا وعدہ بھی کیا جو طالبان دور حکومت میں سختی سے محدود کردیے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں