میانمار: آنگ سان سوچی کا عوام پر فوجی بغاوت قبول نہ کرنے کیلئے زور

اپ ڈیٹ 01 فروری 2021
انتخابات کو آنگ سان سو چی کی جمہوری حکومت کے لیے ریفرنڈم کے طور پر دیکھا گیا تھا — تصویر: رائٹرز
انتخابات کو آنگ سان سو چی کی جمہوری حکومت کے لیے ریفرنڈم کے طور پر دیکھا گیا تھا — تصویر: رائٹرز

میانمار کی سیاسی جماعت میانمار نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے مصدقہ فیس بک اکاؤنٹ پر زیر حراست رہنما آنگ سان سوچی کی جانب سے شائع ہونے والے بیان میں عوام پر زور دیا گیا ہے کہ انہیں فوجی بغاوت کو قبول نہیں کرنا چاہیے اور احتجاج کرنا چاہیے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق انتخابات کے دنوں میں پارٹی نے اس فیس بک اکاؤنٹ کا استعمال کیا تھا کہ جس پر یہ بیان شائع ہوا، تاہم این ایل ڈی کا کہنا تھا کہ یہ بیان پیر کے روز ہوئی بغاوت سے پہلے تحریر کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ آنگ سان سوچی کو ان کی جماعت کے اہم رہنما اور کارکنان کے ہمراہ پیر کی صبح حراست میں لے لیا گیا تھا جس کے بعد سے وہ عوام میں نظر نہیں آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار میں فوج اقتدار پر قابض، آنگ سان سوچی زیرحراست

ان کے نام سے شائع شدہ بیان میں مزید کہا گیا کہ 'فوج کے اقدامات ملک کو دوبارہ آمریت میں دھکیلنے کے اقدامات ہیں تاہم اس بیان پر ان کے دستخط موجود نہیں'۔

بیان میں کہا گیا کہ 'میں لوگوں پر زور دیتی ہوں کہ اسے قبول نہ کریں اور فوج کی بغاوت پر ردِ عمل اور پورے دل سے احتجاج کریں'۔

مذکورہ بیان ان کی جماعت کے چیئرمین وِن ٹین نے جاری کیا جنہوں نے نیچے اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ نوٹ میں زور دیا کہ یہ مستند اور آنگ سان سوچی کی خواہشات کی عکاسی ہے۔

رائٹرز نے ون ٹین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوسکی البتہ بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'میں اپنی زندگی کی قسم کھاتا ہوں کہ عوام سے یہ درخواست آنگ سان سوچی کا حقیقی بیان ہے'۔

مزید پڑھیں: میانمار: فوج کے مظالم کی تحقیقات کرنے والے صحافی رہا

خیال رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کی صبح جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔

فوج کے زیر ملکیت ایک ٹی وی اسٹیشن پر جاری ایک بیان کے مطابق فوج نے کہا کہ اس نے انتخابی دھاندلی کے جواب میں نظربندیاں کی ہیں جس میں فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ کو اقتدار دیا گیا ہے اور ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

گزشتہ برس نومبر میں این ایل ڈی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی جسے آنگ سان سو چی کی جمہوری حکومت کے لیے ریفرنڈم کے طور پر دیکھا گیا۔

بغاوت کی یہ صورتحال سول حکومت اور فوج کے درمیان کئی روز سے جاری کشیدگی میں اضافے کے بعد سامنے آئی جس نے انتخابات کے نتیجے میں بغاوت کے خدشات کو جنم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'آنگ سان سوچی کے قابلِ افسوس اقدامات کے باوجود نوبل انعام واپس لینا ممکن نہیں'

سیاسی کشیدگی گزشتہ ہفتے اس وقت بڑھ گئی تھی جب ایک فوجی ترجمان نے نئی پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل بغاوت کو مسترد کرنے سے انکار کردیا تھا اور فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ نے آئین ختم کیے جانے کے امکان کو بڑھا دیا تھا۔

تاہم فوج نے ہفتے کے آخر میں سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 'آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے جمہوری اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن کوشش کرے گی'۔

اس سے قبل چند گلیوں میں ٹینکوں کو تعینات کیا گیا تھا اور پارلیمنٹ کی پہلی نشست سے قبل چند شہروں میں فوج کی حمایت میں مظاہرے بھی ہوئے تھے تاہم میانمار کے الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی دھوکا دہی کے فوج کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں