حکومت ملک میں کوئی لاپتا شخص نہیں چاہتی، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 03 فروری 2021
وزیراعظم عمران خان نے کابینہ اجلاس کی صدارت کی—تصویر: عمران خان انسٹاگرام
وزیراعظم عمران خان نے کابینہ اجلاس کی صدارت کی—تصویر: عمران خان انسٹاگرام

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں کوئی لاپتا شخص نہیں چاہتی اور متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ احکامات پر من و عن عمل درآمد یقینی بنائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے وفاقی حکومت کے ملازمین کے احتجاج کا بھی نوٹس لیا اور حکم دیا کہ صوبوں اور مرکز میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے یکساں تنخواہ کے پیکج کی راہ میں بےضابطگیوں کو ختم کیا جائے۔

پیر کی رات کو اسلام آباد میں پیش آئے مہلک ٹریفک حادثے میں 4 جانوں کے ضیاع پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعظم نے سیکیورٹی کے نام پر پروٹوکول کلچر کو اپنانے کی حوصلہ شکنی کرنے کی ہدایت کی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے تحت ایک لاکھ ہاؤسنگ یونٹس تعمیر کیے گئے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ آئندہ 6 ماہ میں تعمیر کردیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: لاپتا فرد کیس: ’عدالتوں سمیت سب جوابدہ ہیں، کوئی کام نہیں کرتا تو وہ اس عہدے کا اہل نہیں‘

دوسری جانب اجلاس کے ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا لاپتا افراد کے معاملے پر دیے گئے اس حالیہ حکم کو اجلاس میں پیش کیا گیا جس میں ان گمشدگیوں کے لیے حکومت اور وزیراعظم کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں کہا تھا کہ ’قابل وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے اراکین شہریوں کو ملنے والے آئینی حقوق کے تحفظ میں ریاست کی طرف سے ناکامی کے ذمہ دار ہوں گے کیونکہ ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘۔

فیصلے میں لکھا گیا کہ آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں جبری گمشدگی گھناؤنا جرم اور ناقابل برداشت ہے، اس فوری کیس میں کیوں اس عدالت کو وزیراعظم اور کابینہ کے رکن کو ذمہ دار نہیں ٹھہرنا چاہیے جنہوں نے درخواست گزار کے بیٹے کے لاپتا ہونے سے لے کر اس کے ٹھکانے کا پتا لگانے تک یا اس کے غائب ہونے سے متعلق کم از کم تسلی بخش وضاحت دینے تک متعلقہ عوامی عہدہ رکھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کی معاونت درکار ہے جبکہ انہیں اُمید ہے کہ ان وزرائے اعظم اور اراکین وفاقی کابینہ کی ایک فہرست پیش کی جائے گی جو 2015 سے کیس کی آئندہ سماعت کی تاریخ تک مذکورہ دفاتر میں ہے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’اٹارنی جنرل سے یہ اُمید بھی ہے کہ وہ عدالت کو آگاہ کریں گے کہ کیوں ان لوگوں پر مثالی جرمانے عائد نہیں کیے جاسکتے جنہیں درخواست گزار کے بیٹے کی گمشدگی کی تسلی بخش وضاحت میں ریاست کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے‘۔

اجلاس کے شرکا نے وزیراعظم کے حوالے سے بتایا کہ ان کا کہنا تھا کہ ’میں عدالت کے فیصلے سے مکمل متفق ہوں کہ ملک میں کوئی لاپتا شخص نہیں ہونا چاہیے اور کسی شخص کی گمشدگی کے لیے ریاست ذمہ دار ہے‘۔

انہوں نے حکم دیا کہ مؤثر قانون سازی کی جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک میں کوئی شخص لاپتا نہ ہو۔

ادھر وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی سے متعلق بل 2 سال سے پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے اور اس پر کوئی کام نہیں کیا جارہا۔

اس پر وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ نے انہیں خط بھیجا تھا اور یہ وزارت انسانی حقوق کا نہیں وزارت داخلہ کا معاملہ ہے۔

علاوہ ازیں وزیراظم نے وزیر قانون کو ہدایت دی کہ وہ جمعرات کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر اس معاملے کو حل کریں کیونکہ ’ہم ہماری حکومت میں کوئی لاپتا شخص نہیں چاہتے‘۔

ملازمین کی تنخواہیں

وفاقی حکومت کے ملازمین کے احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے عمران خان نے حکم دیا کہ تنخواہوں کو دیگر صوبائی اور وفاقی حکومت کے محکموں کے ملازمین کے برابر لایا جائے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ ضابطگی ہے جس کے تحت صوبائی محکموں کے ملازمین وفاقی حکومت کے ملازمین سے زیادہ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جبری لاپتا افراد میں سے 3 ہزار 800 کا سراغ لگا لیا، انکوائری کمیشن

انہوں نے مزید کہا کہ متعلقہ حکام کو ایک پالیسی وضع کرنی چاہیے جس کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ملازمین کی تنخواہیں برابر ہوں۔

وزیراعظم استعفیٰ دینے کو تیار

دریں اثنا وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے وزیراعظم کا ایک بیان جاری کیا جس میں عمران خان نے کہا کہ اگر اپوزیشن لیڈرز جنہوں نے قومی دولت کو لوٹا ہے وہ قومی خزانے میں جمع کرادیں تو وہ اپنے دفتر سے استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہیں۔

اس حوالے سے کابینہ اجلاس کے بعد جب وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز سے اس سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا استعفیٰ اصل مسئلہ نہیں بلکہ زیادہ اہم یہ ہے کہ اپوزیشن اپنی 31 جنوری کی ڈیڈلائن تک ان کا استعفیٰ لینے میں کیوں ناکام ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں