میانمار کی فوجی حکومت نے ملک میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کو بلاک کردیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق فوجی حکومت کے احکامات کے بعد میانمار میں مقامی ٹیلی کام نے فیس بک کو عارضی طور پر بلاک کردیا ہے۔

ٹیک کرنچچ کی رپورٹ کے مطابق اب میانمار میں لوگوں کو فیس بک، میسنجر، انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک اس ملک کے سب سے بڑے ٹیلی کام آپریٹر ایم پی ٹی پر رسائی ممکن نہیں رہی۔

فوجی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ فیس بک ملک میں عدم استحکام میں کردار ادا کررہی تھی جس کے باعث اس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

میانمار میں فیس بک کے 2 کروڑ 70 لاکھ صارفین ہیں اور اس پر پابندی 7 فروری تک برقرار رہے گی۔

فیس بک کے ایک ترجمان نے انگیجیٹ ڈاٹ کو بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ میانمار میں کچھ لوگوں کو فیس بک تک رسائی متاثر ہوئی ہے، ہم انتظامیہ سے اس کو بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، تاکہ عوام کو اپنے پیاروں سے رابطے کے ساتھ ساتھ اہم تفصیلات تک رسائی مل سکے۔

خیال رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کی صبح جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔

فوج کے زیر ملکیت ایک ٹی وی اسٹیشن پر جاری بیان کے مطابق فوج نے کہا تھا کہ اس نے انتخابی دھاندلی کے جواب میں نظربندیاں کی ہیں جس میں فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ کو اقتدار دیا گیا ہے اور ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

گزشتہ برس نومبر میں این ایل ڈی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

2 فروری کو فیس بک نے میانمار کی فون کے اقدامات کی حمایت کرنے والے ایک ٹی وی اسٹیشن سے متعلق اکاؤنٹ کو بین کردیا تھا۔

اس وقت فیس بک کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ کمپنی کی جانب سے میانمار کے سیاسی حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے جبکہ گمراہ کن تفصیلات اور مواد کی روک تھام کی جارہی ہے تاکہ تناؤ مزید بڑھ نہ سکے۔

خیال رہے کہ 28 اگست 2018 کو فیس بک نے mیانمار میں نفرت انگیز تقاریر اور غلط معلومات پھیلانے والے 18 اکاؤنٹس، 52 پیجز اور ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ کو غیرفعال کردیا تھا، ان اکاؤنٹس اور پیجز کو ایک کروڑ 20 لاکھ افراد فالو کررہے تھے۔

فیس بک انتظامیہ نے میانمار کے اس وقت کے آرمی چیف من اونگ ہلینگ سمیت اعلیٰ فوجی حکام کے اکاؤنٹ بھی بند کردیے تھے۔

اس موقع پر کمپنی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت پر مبنی مواد پھیلانے پر کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں