مسئلہ کشمیر علاقائی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 11 فروری 2021
ہم کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے میں تعاون کر سکتے تھے مگر ہم نے اجتماعی طور پر ایسا نہیں کیا، شاہ محمود قریشی
ہم کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے میں تعاون کر سکتے تھے مگر ہم نے اجتماعی طور پر ایسا نہیں کیا، شاہ محمود قریشی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے خطے کے ساتھ تعاون کرسکتا ہے تاہم ہم نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ مسئلہ کشمیر علاقائی تجارت اور ترقی کی راہ میں 'رکاوٹ' ہے۔

وزیر خارجہ اسلام آباد میں فوٹو گرافی اور ثقافت کی نمائش کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے جس میں غیر ملکی سفارت کاروں اور معززین نے شرکت کی تھی تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کریں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'ہم کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے میں تعاون کر سکتے تھے مگر ہم نے اجتماعی طور پر، علاقائی سطح پر ایسا نہیں کیا، ہم بہتر کام کر سکتے تھے'۔

مزید پڑھیں: او آئی سی کی جانب سے بھارت کو متحد سیاسی پیغام دینا انتہائی ناگزیر ہے، وزیر خارجہ

انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے علاقائی تجارت نہیں ہوئی اور جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون (سارک) ایسوسی ایشن کام نہیں کررہا جب کہ 'ہم نے ہر جگہ علاقائی تجارت میں ترقی دیکھی جیسے یورپی یونین (ای یو) اور آسیان (جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن)'۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ 'رکاوٹ کیا ہے؟ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا اور ہمیں عالمی برادری کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بھارت میں موجودہ حکومت نے جو کچھ کیا ہے وہ ناقابل تسخیر ہے'۔

انہوں نے سوال کیا کہ مقبوضہ خطے میں بھارت کی جانب سے سرمایہ کاری کا وعدہ کہاں گیا، مقبوضہ کشمیر میں پھلنے پھولنے والی سیاحت 5 اگست 2019 کو اٹھائے گئے 'تباہ کن" اقدامات کی وجہ سے 'ختم' ہوچکی ہے جس نے بھارت کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا ذکر کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'ہم بھارت کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں اور ہم بھارت کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں تاہم اس (کشمیر) تنازع کی وجہ سے جنوبی ایشیا کو نقصان اٹھانا پڑا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں 'نسل کشی' سے صَرف نظر نہیں کرسکتی، وزیر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ 'دونوں اطراف میں تناؤ' کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں پر محدود وسائل کا 'زیادہ سے زیادہ استعمال' نہیں کیا جارہا۔

انہوں نے کہا کہ 'وقت آگیا ہے کہ ہم ظاہر کریں کہ ہم کس طرح آگے بڑھتے ہیں، جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیر مستحکم ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مسئلہ کشمیر کے بارے میں بات نہ کرنے کا انتخاب کرنا اور اس کو نظرانداز کرنے سے حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور اس مسئلے کو بات چیت اور پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے'۔

انہوں نے تقریب میں موجود غیر ملکی معززین اور سفارتی عملے کو بتایا کہ 'کون ایسا ماحول پیدا کرے گا جو دوبارہ مشغولیت کے لیے ضروری ہے، اس لیے براہ کرم اپنے دارالحکومتوں کو لکھیں (اور) اصل صورتحال کے بارے میں آگاہ کریں'۔

مزید پڑھیں: وزیر خارجہ کا سلامتی کونسل کو خط، 'مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی صریح اور منظم پامالیوں سے آگاہ کیا'

انہوں نے زور دیا کہ وہ آزاد کشمیر اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے دونوں کا جائزہ لیں اور بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ سفارتی وفد کو وہاں کے لوگوں سے ملاقات کرکے مقبوضہ کشمیر پر ایک 'آزاد تشخیص' کرنے کی اجازت دے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ انسانی حقوق سے متعلق ان کے مستقل مؤقف کی بنیاد پر 'وہاں کے زمینی حقائق کو نظر انداز کرنا چھوڑ دے گی'۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں توقع ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم اور یورپی یونین اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں