کیا نیا کورونا وائرس پینگولین سے انسانوں میں پہنچا؟

10 فروری 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کیا نیا کورونا وائرس پینگولین سے چھلانگ لگا کر انسانوں میں پہنچا اور عالمی وبا کا باعث بنا؟

ایک نئی تحقیق کے مطابق خیال قابل قبول ہوسکتا ہے۔

متعدد افراد کا ماننا ہے کہ چمگادڑیں ہی اس نئے کورونا وائرس کا اصل ماخذ ہوسکتی ہیں اور اس تحقیق میں نئے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کی ساخت کا موازنہ چمگادڑوں اور پینگولین میں پائے جانے والے کورونا وائرسز سے کیا۔

برطانیہ کی اسٹرکچرل بائیولوجی آف ڈیزیز پراسیس لیبارٹری کی اس تحقیق میں شامل انتھونی وروبل نے بتایا کہ ہم نے 2 اہم باتوں کو دریافت کیا۔

انہوں نے کہا کہ پہلی چیز تو یہ تھی کہ چمگادڑ میں پائے جانے والا وائرس پینگولین کو بیمار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جبکہ دوسری بات یہ تھی کہ پینگولین میں موجود وائرس انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تحقیق کے دوران محققین نے ایک ٹیکنالوجی کرائیو الیکٹرون مائیکرو اسکوپی کو استعمال کرکے پینگولین میں موجود کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کی جانچ پڑتال کی۔

انہوں نے دریافت کیا کہ اس وائرس کے اسپائیک پروٹین کے کچھ حصے انسانی وائرس سے بہت ملتے جلتے ہیں جبکہ کچھ مختلف بھی ہیں۔

اگرچہ تحقیق میں یہ دریافت کیا گیا کہ چمگادڑوں میں موجود کورونا وائرس RaTG13 انسانوں یا پینگولینز کے ریسیپٹر جکڑ نہیں سکتا اور پینگولین میں موجود وائرس اس جانور اور انسانوں کے ریسیپٹر جکڑ سکتا ہے، تاہم ابھی یہ تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ پینگولین وائرس ہی انسانوں میں پہنچ جانے والے نئے وائرس کے پیچھے ہے۔

تاہم محققین کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ مخصوص منظرنامے میں ایسا ممکن ہوسکتا ہے، یعنی RaTG13 یا اس سے ملتا جلتا چمگادڑوں میں پائے جانے والا وائرس کسی اور قسم سے مل گیا ہو۔

انہوں نے کہا کہ ایسا بھی امکان ہے کہ چمگادڑوں میں موجود کوئی نامعلوم کورونا وائرس پینگولین تک پہنچا اور وہاں سے انسانوں میں چلا گیا۔

محققین نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ایسے شواہد نہیں جو سارس کوو 2 کے ارتقائی سفر کی تصدیق کرسکے یا حتمی طور پر ثابت ہوسکے کہ یہ پینگولینز سے انسانوں میں منتقل ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ پینگولین وائرس انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے، تو ہم انتباہ کرتے ہیں کہ ان جانداروں کے ساتھ تعلق کے حوالے سے احتیاط کی جانی چاہیے اور ان کی غیرقانونی اسمگلنگ اور تجارت کی روک تھام ہونی چاہیے۔

یہ ماہرین نئے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹینز اور متعلقہ کورونا وائرسز کے حوالے سے اپنی تحقیق کو جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی بھی نئے کورونا وائرس کے ارتقا کے بارے میں جاننا باقی ہے، مگر ہم جتنا اس کی تاریخ اور اس کے ماخذ کے بارے میں جانیں گے، اتنا ہی سمجھ سکیں گے کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے اور کس طرح پھیل سکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن کے آن لائن ایڈیشن میں شائع ہوئے۔

اس سے قبل مئی 2020 کے شروع میں چین کی ایک تحقیق میں نتیجہ نکالا گیا تھا کہ چمگادڑوں سے یہ وائرس پینگولین میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں میں پہنچ گیا۔

اس تحقیق میں ساؤتھ چائنا ایگریکلچرل یونیورسٹی اور گوانگ ڈونگ لیبارٹری فار لینگنان ماڈرن ایگریکلچرل کے سائنسدانوں نے کام کیا اور ان کا کہنا تھا کہ سارس کوو 2 جو کووڈ 19 کا باعث بنتا ہے، میں 2003 کے ایک حیوانی وائرس سارس کوو اور چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس آراے ٹی جی 13 کا سیکونس پایا جاتا ہے۔

جریدے جرنل نیچر میں شائع اس تحقیق میں کہا گیا 'چمگادڑوں میں متعدد اقسام کے کورونا وائرسز موجود ہوسکتے ہیں، مگر سارس کوو 2 کا دوسرا میزبان اب بھی واضح نہیں'۔

تحقیق کے مطابق ایک ملائیشین پینگولین میں ایک کورونا وائرس کو الگ کرنے پر اس کے ای، ایم، این اور ایس جینز کا موازنہ نئے نوول کورونا وائرس کیا گیا تو یہ بالترتیب 100 فیصد، 98.6 فیصد، 97.8 فیصد اور 90.7 فیصد ملتے تھے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ خاص طور پر پینگولین کورونا وائرس میں خلیات کو متاثر کرنے والے ایس پروٹین بھی نئے نوول کورونا وائرس سے ہوبہو مشابہت رکھتا ہے،بس ایک غیر اہم امینو ایسڈ فرق ہے۔

سائنسدانوں نے 17 سے 25 ملائشین پینگولینز میں تجزیہ کرنے کے بعد اس پینگولین وائرس کو شنااخت کیا تھا اور اسے الگ کرنے کے بعد یہ نتیجہ بیان کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں