صدارتی ریفرنس میں شامل سوالات، سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں جواب موجود ہے، جج

اپ ڈیٹ 12 فروری 2021
کیا آپ کوئی ایسی مثال قائم کر رہے ہیں کہ دو مختلف بینچز کے فیصلوں کے درمیان تنازع ہو، جسٹس یحیٰی آفریدی کا حکومت پر حیرت کا اظہار - فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
کیا آپ کوئی ایسی مثال قائم کر رہے ہیں کہ دو مختلف بینچز کے فیصلوں کے درمیان تنازع ہو، جسٹس یحیٰی آفریدی کا حکومت پر حیرت کا اظہار - فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے حکومت کے اقدام پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ کی رائے طلب کرنے کے لیے کیوں دائر کیا گیا جبکہ اس میں موجود سوالات کا جواب اعلیٰ عدلیہ کے ایک فیصلے میں دے دیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ 'کیا آپ کوئی ایسی مثال قائم کر رہے ہیں کہ دو مختلف بینچز کے فیصلوں کے درمیان تنازع ہو تو آپ کو کسی ریفرنس کے ذریعے وضاحت کی ضرورت ہوگی'۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب حکومت کے پاس پہلے ہی کوئی فیصلہ تھا جس میں جواب موجود تھا تو ریفرنس دائر کرنے کی ضرورت کیا تھی؟

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: 'جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا'

عدالت اعظمیٰ کے جج کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے جب اٹارنی جنرل برائے پاکستان (اے جی پی) خالد جاوید خان نے سپریم کورٹ کے سامنے سینیٹ میں ووٹنگ سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے 2014 میں کہا تھا کہ بلدیاتی انتخابات ہمیشہ آئین کے تحت ہی ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہی نظریہ سن 2017 میں سندھ ہائی کورٹ نے بھی اپنایا تھا تاہم سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل ایک بینچ نے بعدازاں ایک مختلف نظریہ اختیار کیا اور فیصلہ دیا تھا کہ ایسے انتخابات آئین کے تحت نہیں ہوتے تاہم اس کی کوئی تفصیلی وجہ جاری نہیں کی گئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ بعد ازاں دو ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کا ایک بینچ ایک مختلف فیصلہ لے کر سامنے آیا تھا کہ اس طرح کے انتخابات آئین کے تحت تھے تاہم یہ فیصلہ انکیوریم (قانونی تشریح اور حقائق بیان کیے بغیر) جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'عدالتی رائے حتمی فیصلہ نہیں'

دلچسپ بات یہ ہے کہ اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے استدلال کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) 2018 میں سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اس معاملے میں فریق تھا تاہم اس نے سپریم کورٹ کو سابقہ تین رکنی بینچ کے حکم سے آگاہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ ایک حادثاتی غلطی ہوسکتی ہے، وہ کمیشن کی طرف کسی قسم کی بدنامی کا الزام نہیں لگاسکتے کیونکہ یہ ایک آئینی ادارہ ہے'۔

جسٹس یحیٰ آفریدی کی طرف سے اٹھائے گئے سوال کے بارے میں اے جی پی نے وضاحت کی کہ وہ سپریم کورٹ کے سامنے ریفرنس کو منتقل کرنا محفوظ ترین راستہ سمجھتے ہیں کیونکہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر کھلی رائے شماری کے لیے کابینہ کو آگے بڑھنے کا مشورہ دینے کا بہت بڑا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے تھے کیونکہ لوگ ان کے بارے میں منفی رائے اختیار کرلیتے اور ان کی ساکھ پر حملہ کیا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'ہارس ٹریڈنگ روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے'

دریں اثنا اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بیرسٹر ظفر اللہ خان کے توسط سے سپریم کورٹ میں سائناپسس دائر کیا گیا اور جس میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کو اس وقت جب انتہائی اخلاقی طور پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں تو زیادہ سے زیادہ سیاسی ماحول کی روشنی میں اس ریفرنس کا جواب نہیں دینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس طرح کے مباحثوں کا مناسب فورم پارلیمنٹ ہے جو عوام کی عمومی خواہش کی عکاسی کرتی ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں