سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ کے طریقہ کار پر ابہام کے دوران 170 کاغذات نامزدگی جمع

16 فروری 2021
الیکشن کمیشن اب ان کاغذات نامزدگیوں کی اسکروٹنی کرے گا—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
الیکشن کمیشن اب ان کاغذات نامزدگیوں کی اسکروٹنی کرے گا—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

اسلام آباد: ملک میں جہاں 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات کے لیے ووٹنگ کے طریقہ کار پر اب تک غیریقینی صورتحال برقرار ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں وہی سینیٹ انتخابات کے لیے مجموعی طور پر 170 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی 48 نشستوں کے لیے ملک بھر سے 170 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں، جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 44 امیدواروں سمیت 70 نے پیرکو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے آخری روز اپنی نامزدگی کے کاغذات جمع کرائے۔

کاغذات نامزدگی کے آخری روز حکمران پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کے کاغذات جمع کرانے سے ان رپورٹس کو تقویت ملتی ہے کہ تقریباً تمام صوبوں بالخصوص سندھ میں اپنی صفوں میں اختلافات کے باعث پارٹی اپنے امیدواروں کو حتمی شکل دینے میں مصروف تھی۔

سندھ سے پی ٹی آئی کے 12 امیدوار جس میں 2 امیدواروں فیصل واڈا اور سیف اللہ ابڑو کی پہلی منظوری دی جاچکی تھی، نے آخری روز اپنے کاغذات جمع کرائے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات کیلئے ٹکٹیں دینے پر پی ٹی آئی اور بی اے پی میں اختلافات

ان مجموعی 170 امیدواروں میں سے صرف 11 آزاد امیدوار ہیں جس میں سے 9 خیبرپختونخوا اور 2 بلوچستان سے ہیں۔

اعداد و شمار کو دیکھیں تو سب سے زیادہ 51 نامزدگیاں خیبرپختونخوا سے دیکھنے میں آئیں، جس کے بعد بلوچستان سے 41، سندھ سے 39، پنجاب سے 29، اسلام آباد سے 10 امیداروں نے اپنے کاغذات نامزدگیاں جمع کرائیں۔

ان امیدواروں میں سے 87 نے 29 جنرل نشستوں کے لیے، 33 امیدواروں نے ٹیکنوکریٹس کی 8 نشستوں کے لیے، 40 امیدواروں نے خواتین کے لیے مختص 9 نشستوں کے لیے جبکہ 10 امیدواروں نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے اقلیتوں کی 2 نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔

الیکشن کمیشن کے ترمیم شدہ شیڈول کے مطابق نامزد امیداروں کے ناموں کا اعلان آج (منگل) کو کیا جائے گا جبکہ17 اور 18 فروری کو ان کاغذات کی اسکروٹنی ہوگی، کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں 19 اور 20 فروری کو جمع کرائی جائیں گی جبکہ ان اپیلوں پر فیصلہ 22 اور 23 فروری کو ہوگا اور امیدواروں کی نظرثانی شدہ فہرست 24 فروری کو جاری کی جائے گی۔ علاوہ ازیں کاغذات نامزدگی واپس لینے کے لیے آخری تاریخ 25 فروری ہے جبکہ پولنگ 3 مارچ کو ہو گے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے پیر کو ہدایات جاری کی گئیں کہ اسکروٹنی کے وقت امیدواروں کے ’پروپوسرز اور سیکنڈرز‘ کو ریٹرننگ افسر (آر او) کے سامنے ذاتی طور پر موجود ہونا ہوگا بصورت دیگر اسی پی نے خبردار کیا ہے کہ آر او کی جانب سے کاغذات ’سرسری طور پر مسترد کردیے جائیں گے‘۔

واضح رہے کہ سینیٹ کے 104 اراکین میں سے 52 اراکین (50 فیصد) اپنی 6 سالہ مدت ختم ہونے کے بعد 11 مارچ کو ریٹائر ہورہے ہیں، تاہم اس مرتبہ قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کی وجہ سے چار نشستوں پر پولنگ نہیں ہوگی، لہٰذا 48 سینیٹرز کا انتخاب کیا جائے گا۔

جس میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے 12، 12 سینیٹرز، پنجاب اور سندھ سے 11،11 جبکہ اسلام آباد سے 2 سینیٹرز کو منتخب کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات: پی ٹی آئی نے حفیظ شیخ، ثانیہ نشتر سمیت 13 کو اُمیدوار نامزد کردیا

پولنگ میں چاروں صوبوں سے عام (جنرل) نشستوں پر 7 اراکین، 2 نشستوں پر خواتین، 2 نشستوں پر ٹیکنوکریٹس کو چُنا جائے گا جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے اقلیتی نشست پر ایک، ایک رکن منتخب ہوگا۔

یہاں یہ بھی مدنظر رہے کہ حکومت نے ووٹوں کی خرید و فروخت کے ذریعے ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس بھی دائر کیا ہے، جس پر ابھی تک عدالت نے فیصلہ نہیں دیا۔

تاہم عدالت عظمیٰ سے کسی من پسند فیصلے کی توقع رکھنے اور اس مقصد کے لیے آئینی ترمیمی بل کو قومی اسمبلی سے پاس کرانے میں ناکامی کے بعد حکومت پہلے ہی ’اوپن اور قابل شناخت بیلٹس’ کے استعمال کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 ترمیمی آرڈیننس جاری کرچکی ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے اٹھائے گئے اس قدم کو مسترد کیا گیا تھا اور آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج بھی کردیا گیا تھا۔ سینیٹ انتخابات کی بات کریں تو اسلام آباد کی 2 نشستوں ایک جنرل اور ایک خاتون نشست پر سب سے دلچسپ مقابلہ ہے، جس کے لیے پولنگ نیشنل اسمبلی میں منعقد ہوگی۔

دارالحکومت سے واحد جنرل نشست پر پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان ون آن ون مقابلہ متوقع ہے، عبدالحفیظ شیخ جو اس وقت عمران خان کی کابینہ میں وزیر خزانہ کے طور پر فرائض انجام دے رہے وہ اس سے قبل یوسف رضا گیلانی کے دور میں بھی اسی پوزیشن پر فرائض انجام دے چکے ہیں۔

یوسف رضا گیلانی اور عبدالحفیظ شیخ کے درمیان مقابلہ قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل کرچکا ہے جہاں حکمران اتحاد کو صرف 20 نشستوں کی برتری حاصل ہے۔

تاہم پی ڈی ایم کی قیادت کو یقین ہے کہ اگر سنجیدگی سے مہم چلائی گئی تو یوسف رضا گیلانی یہ نشست حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ اس طرح کی اطلاعات ہیں کہ حکمران اتحاد میں ایسے کئی افراد عبدالحفیظ شیخ کو ٹکٹ دینے کے قیادت کے فیصلے پر ناخوش ہیں جو انہیں باہر والا تصور کرتے ہیں اور یہ پی ٹی آئی کی صفوں میں ’پیراشوٹر‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی پر تنازع

اسی طرح خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ون آن ون مقابلہ ہوگا، اس وقت ایک جنرل نشست کے لیے 6 امیدواروں اور ایک خاتون نشست کے لیے 4 خواتین نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

عبدالحفیظ شیخ کے علاوہ پی ٹی آئی کے کم معروف امیدوار سید محمد علی بخاری اور فرید رحمان نے بطور کورنگ امیدوار اپنی نامزدگیاں جمع کرائی ہیں۔

اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے طارق فضل چوہدری نے بھی یوسف رضا گیلانی کے لیے پی ڈی ایم کے کورنگ امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کرائے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں جنرل نشستوں پر 22 امیدوار ہیں جس میں سے 11 کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، مزید یہ کہ 4 خواتین کی نشستوں کے لیے 13 امیدوار ہیں، جس میں سے 6 تحریک انصاف سے ہیں جنہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

اس کے علاوہ ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں کے لیے 11 امیدوار ہیں جبکہ ایک اقلیتی نشست کے لیے 5 امیدوار میدان میں ہیں۔

خیبرپختونخوا سے معروف امیدواروں میں پی ٹی آئی کے شبلی فراز اور محسن عزیز، پی پی پی کے فرحت اللہ بابر، جے یو آئی (ٖف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی مولانا عطا الرحمٰن نے جنرل نشست پر انتخاب کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں۔

سندھ سے اگر معروف امیداروں کی بات کریں تو پیپلزپارٹی سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا، شیری رحمٰن، فاروق نائیک اور تاج حیدر ہیں جبکہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے سہیل منصور خواجہ، فیصل سبزواری اور عبدالقادر خانزادہ ہیں۔

دوسری جانب اس حقیقت کے بعد سندھ سے پی ٹی آئی کی صرف ایک جنرل نشست جیتنے کی توقع ہے، 5 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جس میں فیصل واڈا بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ جنرل نشست پر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کاغذات جمع کرانے والوں میں محمود بقی مولوی، عمید علی جنیجو، اشرف جبار اور زنیرہ ملک شامل ہیں، مزید یہ کہ 3 پی ٹی آئی خواتین نے بھی مخصوص نشستوں پر کاغذات جمع کرائے ہیں۔

حیران کن طور پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے سندھ اسمبلی میں صرف 3 ایم پی ایز کے باجود ٹیکنوکریٹس کے لیے مختص نشستوں پر یش اللہ خان افغان کے کاغذات بھی جمع کرائے ہیں۔

پنجاب کی بات کریں تو وہاں اصل مقابلہ تحریک اںصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہے، صوبے سے مسلم لیگ (ن) کے معروف امیدواروں میں پرویز رشید، مشاہد اللہ خان، زاہد حامد، سعدیہ عباسی اور سائرہ افضل تارڑ شامل ہیں جبکہ پی ٹی آئی سے سیف اللہ نیازی، عون عباس، عمر سرفراز چیمہ، اعجاز چوہدری اور علی ظفر ہیں۔

اس کے علاوہ پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے کامل علی آغا حکمران اتحاد کے مشترکہ امیدوار بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات: سندھ سے پی ٹی آئی کے کسی رکن نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے

حیران کن طور پر پنجاب میں ٹیکنوکریٹس کے لیے مختص 2 نشستوں کے لیے 3 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں، پی ٹی آئی کے علی ظفر کے علاوہ عطاللہ خان نے بھی مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کا ایک امیدوار اس دوڑ سے باہر ہوجاتا ہے تو پنجاب سے مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے دونوں امیدوار دونوں ٹیکنوکریٹ کی نشستوں کو بلامقابلہ حاصل کرسکتے ہیں۔

پارٹی کی صفوں میں اختلافات کی خبروں کے دوران پی ٹی آئی نے ابتدائی طور پر چاروں صوبوں اور اسلام آباد سے اپنے 20 امیدواروں کی فہرزت کا اعلان کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے وزیراعظم کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی بورڈ نے بلوچستان میں بزنس ٹائیکون عبد القادر کو دیا گیا ٹکٹ صوبائی قیادت کی سخت مخالفت پر واپس لے کر جنرل نشست کے لیے پارٹی کے رکن ظہور آغا کو دیا تھا۔

مزید یہ ظہور آغا بھی آخری روز کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں میں شامل تھے۔

عبدالقادر کو پارٹی ٹکٹ دینے کی مخالفت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت نے اعتراض کیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی سے تعلق نہیں رکھتے کیونکہ گزشتہ ہفتے تک بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے رکن تھے۔

ادھر خیبرپختونخوا سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ٹکٹ پر 2015 میں سینیٹر بننے والی ستارہ ایاز بھی 11 مارچ کو ریٹائر ہونے والے 52 سینیٹرز میں شامل ہیں تاہم انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور اس مرتبہ وہ بی اے پی کے ٹکٹ پر بلوچستان سے کھڑی ہوئی ہیں۔

اے این پی کی قیادت نے ستارہ ایاز کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد کے دوران چیئرمین کے حق میں مبینہ طور پر ووٹ ڈالنے پر پارٹی سے نکال دیا تھا۔

مزید برآں بلوچستان سے معروف امیداروں میں بی اے پی کے سرفراز بگٹی، جے یو آئی (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری اور کامران مرتضیٰ، بی این پی عوامی کے اصراراللہ زہری اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ شامل ہیں۔

واضح رہے کہ مارچ میں آنے والے انتخابات کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سینیٹ میں اکیلی سب سے بڑی پارٹی بننے کو تیار ہے تاہم یہ یقینی طور پر پارلیمنٹ کے ایوان بالا کا کنٹرول حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوگی اور اسے معمولی قانون سازی کے لیے بھی اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن جماعتوں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔

ایوان بالا کے اراکین کے انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں تشکیل دینے والی قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد اور اگر تمام قانون ساز پالیسی کے مطابق ووٹ اپنی متعلقہ پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں تو ایک محتاط اندازے کے مطابق حکمران پی ٹی آئی کو 20 نشستیں ملنے کا امکان ہے، جس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) 6، 6 نشستیں اور مسلم لیگ (ن) 5 نشستیں جیت سکتی ہے۔


یہ خبر 16 فروری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں