برطانوی صحافی نے کاوے موسوی کی شہزاد اکبر سے ملاقات میں کردار ادا کیا

اپ ڈیٹ 16 فروری 2021
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ان کا اکتوبر 2019 سے قبل کاوے موسوی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا—تصاویر: اے پی پی، ٹوئٹر
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ان کا اکتوبر 2019 سے قبل کاوے موسوی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا—تصاویر: اے پی پی، ٹوئٹر

لندن: براڈ شیٹ کمپنی کے مالک کاوے موسوی نے الزام عائد کیا ہے کہ برطانوی صحافی ڈیوڈ روز نے پاکستانی حکومت سے 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر حاصل کرنے میں معاونت فراہم کرنے کے بدلے کمیشن مانگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ صحافی جو دی میل آن سنڈے اور میل آن لائن میں لکھتے ہیں اور ان کی مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے خلاف ایک خبر آج کل ہتک عزت کے دعوے کا مرکز بنی ہوئی ہے، انہوں نے کسی بھی قسم کا کمیشن طلب کرنے کی تردید کی ہے۔

اکتوبر 2019 میں جب کاوے موسوی حکومتِ پاکستان کی جانب سے عدالت کا مقرر کردہ 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کا ہرجانہ حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے تو انہوں نے ڈیوڈ روز سے رابطہ کیا اور انہیں مدد فراہم کرنے کا کہا۔

یہ بھی پڑھیں: کاوے موسوی نے اپنی توپوں کا رخ موجودہ حکومت کی جانب موڑ دیا

چنانچہ اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈیوڈ روز نے کینسنگٹن کے رائل گارڈن ہوٹل میں وزیر اعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر اور کاوے موسوی کی نہ صرف پہلی ملاقات کرائی بلکہ اس دوران خود بھی موجود تھے۔

جیو نیوز کو دیے ایک انٹرویو میں کاوے موسوی کا کہنا تھا کہ 'ڈیوڈ روز نے کہا کہ وہ شہزاد اکبر کو جانتے ہیں اس لیے میرے گھر پر ہماری بات چیت ہوئی اور بعد میں انہوں نے شہزاد اکبر کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا'۔

کاوے موسوی کے مطابق ڈیوڈ روز نے پوچھا کہ اس میں ان کے لیے کیا ہے اور پاکستان کے ساتھ معاہدے کی صورت میں اپنا مارگیج حل کرنا چاہتے تھے۔

کاوے موسوی نے کہا کہ 'ہم نے ہاتھ ملائے کہ میں ان کا 2 لاکھ 50 ہزار پاؤنڈ کا مارگیج حل کردوں گا'، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر اس وقت انہیں پاکستان سے رقم موصول ہوجاتی تو انہیں ڈیوڈ روز کو کمیشن ادا کرنا پڑتا۔

مزید پڑھیں: سیاسی الزام تراشیوں کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا، سربراہ براڈ شیٹ

دوسری جانب ڈیوڈ روز نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ کاوے موسوی نے ان سے ملاقات کروانے کا کہا تھا، میں شہزاد اکبر کو طویل عرصے سے جانتا تھا اس لیے میں رضامند ہوگیا، جہاں تک میرا تعلق ہے میں صرف ایک دوست کی مدد کررہا تھا حالانکہ کاوے موسوی نے 2 مرتبہ کہا کہ اگر ان کا تصفیہ ہوجاتا ہے تو وہ مجھے کمیشن ادا کریں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'ابتدا میں مجھے لگا کہ وہ مذاق کررہے ہیں لیکن جب انہوں نے دوبارہ اپنی پیشکش دہرائی تو میں نے انہیں (زبانی) بتایا کہ میں اسے قبول نہیں کرسکتا، میں نے ملاقات کروانے کے لیے نہ کبھی پیسے مانگے نہ لیے۔

اس ضمن میں جب ڈان نے شہزاد اکبر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا اکتوبر 2019 سے قبل کاوے موسوی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا، ڈیوڈ نے مجھے ان سے ملوایا اور یہ خفیہ ملاقات نہیں تھی۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں کمیشن کی درخواست کا کوئی علم نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:براڈشیٹ کے مالک کے شریف خاندان پر الزامات کے بعد نیا تنازع کھڑا ہو گیا

بعدازاں جیو کے اینکر شاہزیب خانزادہ کے پروگرام شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ڈیوڈ روز ان کے دوست ہیں اور وہ انہیں 6 برسوں سے جانتے ہیں۔

خیال رہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے تقریبا 20 سال قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی غیر ملکی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے براڈشیٹ سے معاہدہ کیا تھا۔

دسمبر 2018 میں برطانوی عدالت نے واحد ثالث کے طور پر حکومت پاکستان کو براڈ شیٹ کو 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔

جولائی 2019 میں حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی جو ناکام رہی، ثالثی عدالت کے مطابق پاکستان اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے غلط طور پر براڈ شیٹ کے ساتھ اثاثہ برآمدی کا معاہدہ ختم کیا اور کمپنی کو نقصان کا ہرجانہ ادا کیے جانے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'اثاثہ برآمدگی کمپنی' کا شریف خاندان کی ایون فیلڈ جائیداد سے متعلق دعویٰ

جس کے بعد براڈ شیٹ مذکورہ رقم کی ادائیگی کے لیے 6 ماہ تک نیب عہدیداروں کے علاوہ اٹارنی جنرل کے ساتھ بات چیت کرتی رہی۔

اکتوبر 2019 میں کاوے موسوی نے 2 کروڑ 20 لاکھ ادائیگی کا مطالبہ کرنے کے لیے شہزاد اکبر سے ملاقات کی جنہوں نے قومی خزانے کا نقصان کم کرنے کے لیے رعایت طلب کی۔

کاوے موسی نے رعایت کی درخواست مسترد کردی اور ادائیگی پر عملدرآمد کے لیے عدالت سے رجوع کیا جس پر کمپنی دسمبر 2019 میں تھرڈ پارٹی ڈیٹ آرڈر حاصل کرنے میں کامیاب رہی جس نے حکومت پاکستان کو 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر بمع سود براڈ شیٹ کو ادا کرنے پر مجبور کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں