شہزاد رائے نے جسمانی تشدد پر پابندی کے بِل کو بچوں کیلئے بہترین تحفہ قرار دے دیا

24 فروری 2021
قومی اسمبلی نے 23 فروری کو اسلام آباد میں بچوں پر جسمانی تشدد پر پابندی کا بِل منظور کیا—فائل فوٹو: فیس بک
قومی اسمبلی نے 23 فروری کو اسلام آباد میں بچوں پر جسمانی تشدد پر پابندی کا بِل منظور کیا—فائل فوٹو: فیس بک

قومی اسمبلی نے تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے 23 فروری کو اسلام آباد میں بچوں پر جسمانی تشدد پر پابندی کا بِل منظور کیا۔

یہ بِل مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے اسلام آباد میں بچوں کو جسمانی سزا دینے کے خلاف احکام وضع کرنے کا بل پیش کیا جسے ایک شق میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی ترمیم کے بعد منظور کیا گیا۔

بل کے متن میں کہا گیا تھا کہ سرکاری و غیر سرکاری، کام کرنے کی جگہ، تعلیمی اداروں، مدارس، ٹیوشن سینٹرز میں بچوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت ہو گی۔

مزید پڑھیں: تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد پر پابندی

اس میں کہا گیا تھا کہ بچے کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی میں جسمانی تشدد شامل نہیں ہو گا اور مرتکب افراد کو نوکری سے فارغ کرنے کی انتہائی سزا دی جا سکتی ہے۔

بل کے متن کے مطابق بچوں پر تشدد کی صورت میں جبری ریٹائرمنٹ، تنزلی، تنخواہ میں کٹوتی کی سزا بھی دی جا سکے گی اور جسمانی تشدد کے خلاف شکایات کے لیے وفاقی حکومت طریقہ کار وضع کرے گی۔

موسیقار، گلوکار اور انسانی حقوق کے کارکن شہزاد رائے جو 2013 سے اپنے تعلیمی ٹی وی شو میں بچوں پر تشدد کے خلاف مہم چلارہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ یہ مسئلہ اتنا اہم کیوں ہے۔

—فائل فوٹو: انسٹاگرام
—فائل فوٹو: انسٹاگرام

ڈان امیجز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم اسکول میں تھے تو پٹائی کلچر تھا، میں کسی کا نام نہیں لینا چاہوں گا لیکن ہم سب نے ہی کسی نہ کسی موقع پر مار کھائی ہے۔

شہزاد رائے نے بتایا کہ ' اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کا خیر سگالی سفیر بننے کے بعد میں نے سینٹرل جیل کراچی میں کنسرٹ میں کیا تھا اور وہاں موجود بچوں سے بات چیت کی تھی'۔

گلوکار نے بتایا کہ ان میں سے اکثر بچوں نے بتایا کہ انہیں مار نہیں پڑتی کیونکہ وہ صرف بڑی چوٹوں جیسا کہ سر پھٹنے یا تشدد پر ہی غور کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: بچوں کو جسمانی سزا، سود کی بنیاد پر کاروبار کی ممانعت کے بلز منظور

ان کا کہنا تھا کہ جب بچوں کو جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں، تو معاشرہ انہیں، ایک پوری نسل کو یہ بتاتا ہے کہ تشدد کسی مسئلے کو حل کرنے کا درست ذریعہ ہے۔

شہزاد رائے نے کہا کہ 'جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین اس کی پٹائی کرتے ہیں، جب وہ تعلیم کے حصول کے لیے اسکول یا مدرسہ جاتا ہے تو اساتذہ اسے مارتے ہیں اور آخر کار پولیس بھی اسے بے رحمی سے مارتی ہے'۔

گلوکار نے مزید کہا کہ 'بچہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر کسی مسئلے کو ٹھیک کرنا ہے تو تشدد ہی اس کا واحد حل، واحد راستہ ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے میں زور دیتا ہوں کہ اپنے بچوں کی حفاظت کریں، انہیں پڑھائیں، سخت سزائیں نہ دیں۔

شہزاد رائے جنہوں نے حالیہ دنوں مختلف قانون سازوں بشمول اسپیکر قومی اسمبلی کو فوری طور پر اس بل پر کارروائی پر زور دیا تھا، اس کی منظوری پر بہت زیادہ خوش ہیں۔

گلوکار نے مزید کہا کہ 'یہ میری طرف سے پاکستان کے بچوں کے لیے بہترین تحفہ ہے'۔

بچوں پر جسمانی تشدد پر پابندی کے بل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ' 2012 سے اس ضمن میں ایک تبدیلی آئی ہے جو میں دیکھ رہا ہوں کہ پہلے جب کوئی بڑا کسی بچے کو مارتا تھا تو لوگ اس کی ویڈیوز بناتے تھے، وہ سوشل میڈیا پر شیئر ہوتی تھیں اور وہ مجرم پکڑا جاتا تھا'۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاہم بعدازاں اس شخص کو رہا کردیا جاتا لیکن اب ایسے افراد جو تشدد کرتے ہیں انہیں رہا نہیں کیا جاتا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف بل کی منظوری ہی اس مسئلے کا حل نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ اصلاحات چلتی رہتی ہیں۔

شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ بچوں کے تحفظ کے اداروں اور محکمہ معاشرتی بہبود دونوں کو یکساں طور پر مضبوط کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سخت ترین لڑائی ہمارے نصاب میں مہارت پر مبنی تعلیم کو شامل کرنا ہے۔

شہزاد رائے نے اس بِل کی منظوری کو ایک مثبت پیشرفت قرار دیا اور ساتھ ہی کہا کہ اس حوالے سے مزید کام ہونے کی ضرورت ہے۔

گلوکار کا کہنا تھا کہ ایسے تمام اقدامات قومی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ اور بھی مسائل ہیں جنہیں حل کرنا ضروری ہے۔

—فائل فوٹو: فیس بک
—فائل فوٹو: فیس بک

خیال رہے کہ گزشتہ برس فروری میں شہزاد رائے نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

درخواست میں سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری قانون، سیکریٹری تعلیم، سیکریٹری انسانی حقوق اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کو فریق بنایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: حیدر آباد: مدرسے کے بچوں پر تشدد کرنے والا استاد گرفتار

درخواست میں کہا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے کیونکہ پڑھائی میں بہتری کے لیے بچوں کو سزا دینا ضروری تصور کیا جاتا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ پاکستان پینل کوڈ کی شق 89 کو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا جائے کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق اور بچوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے یہ استدعا بھی کی تھی کہ اسکولز، جیلوں اور بحالی مراکز میں بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی عائد کی جائے اور انہیں جسمانی و ذہنی تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت کو اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی جائے۔

بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد پر پابندی عائد کرتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی شق 89 کو تاحکمِ ثانی معطل کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں