جسٹس عیسیٰ نے نظرثانی درخواستوں کی سماعت، براہ راست نشر کرنے کی استدعا کردی

اپ ڈیٹ 26 فروری 2021
یہ درخواست انصاف کے بہترین مفاد میں کی گئی ہے اور عدالتی کارروائی متعدد ممالک میں نشر کی جاتی ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ - فائل فوٹوسپریم کورٹ
یہ درخواست انصاف کے بہترین مفاد میں کی گئی ہے اور عدالتی کارروائی متعدد ممالک میں نشر کی جاتی ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ - فائل فوٹوسپریم کورٹ

اسلام آباد: جہاں سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کی سماعت یکم مارچ سے شروع کرنے کے لیے تیار ہے، وہیں جج نے درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی کہ پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن کو سماعت کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی ہدایت کی جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی جسٹس قاضی محمد امین احمد، جسٹس امین الدین خان پر مشتمل 10 رکنی بینچ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کے سیٹ کی سماعت کا آغاز کرے گا۔

درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استدعا کی کہ عدالت عظمی کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو تمام نجی چینلز کو تحریری ہدایات جاری کرنے کا حکم دینا چاہیے کہ وہ عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کرنے یا کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ سے روک نہیں سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس پر نظرثانی کیلئے 10 رکنی بینچ تشکیل

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ درخواست انصاف کے بہترین مفاد میں کی گئی ہے اور عدالتی کارروائی متعدد ممالک میں نشر کی جاتی ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ صدر مملکت کی جانب سے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو ریفرنس بھیجنے کے فوراً بعد ہی اس کے مندرجات کو ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا تھا اور اسے اخبارات میں شائع کیا گیا تھا، اس کے علاوہ ان کے خلاف انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی تعمیل نہ کرنا، انکم ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنا، غیر ظاہر شدہ دولت رکھنا اور اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک بے بنیاد اور جھوٹی پروپیگنڈا مہم بھی چلائی گئی تھی۔

انہوں نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے وہ اس پر کچھ نہیں کرسکتے تھے اور دیگر شہری کی طرح ان الزامات کی تردید یا جواب دینے کے لیے پریس کانفرنس نہیں کر سکتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا پر گرفت رکھنے والے سرکاری فریقین نے بھی اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ ان کی فائلنگ کے مندرجات کو نہ تو نشر کیا جائے گا اور نہ ہی شائع کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سرکاری فریق کی جانب سے استعمال کردہ حربوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے اور ان کے اہلخانہ کے بارے میں منفی عوامی رائے قائم ہو۔

انہوں نے کہا کہ انہیں توقع تھی کہ سپریم جوڈیشل کونسل یا چیف جسٹس، جو کونسل کے چیئرمین تھے، ایک ساتھی جج کی عوامی توہین کو روکیں گے تاہم ایسا نہیں ہوا اور کونسل نے ان کی بدنامی میں حصہ لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ توازن کو بحال کرنے اور عوامی تاثر کو درست کرنے کے لیے درخواست گزار کے کیس میں آئندہ کی تمام کارروائیوں کو براہ راست نشر یا لائیو اسٹریمنگ کرنے کی ہدایت کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کرنا یا لائیو اسٹریمنگ کرنا ان کے بنیادی اور آئینی حقوق کی تصدیق ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں