امریکا کا پاکستان، بھارت پر مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں براہِ راست مذاکرات کرنے کیلئے زور

اپ ڈیٹ 26 فروری 2021
نیڈ پرائس نے نیوز بریفنگ کے دوران اپنے ابتدائی کلمات میں اس سمجھوتے کا ذکر کیا—تصویر: رائٹرز
نیڈ پرائس نے نیوز بریفنگ کے دوران اپنے ابتدائی کلمات میں اس سمجھوتے کا ذکر کیا—تصویر: رائٹرز

مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنے پہلے بیان میں امریکا کی جوبائیڈن انتظامیہ نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ اس معاملے پر براہِ راست بات کی جائے، ساتھ ہی دونوں پڑوسی ممالک کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر کشیدگی کم کرنے کے فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا ہے۔

خیال رہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کے سینئر فوجی کمانڈرز نے ایل او سی اور دیگر سیکٹرز پر تمام سمجھوتوں، معاہدوں اور جنگ بندی کی پابندی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

واشنگٹن میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے نیوز بریفنگ کے دوران اپنے ابتدائی کلمات میں گزشتہ روز ہوئے سمجھوتے کا ذکر کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بھارت کا ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق

انہوں نے کہا کہ 'ہم بھارت اور پاکستان کے مشترکہ بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ دونوں ممالک فوری طور پر ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کریں گے'۔

ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم دونوں فریقین کے درمیان بہتر روابط کی جاری کوششوں، ایل او سی پر کشیدگی اور پر تشدد واقعات کم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

ان کے اس بیان پر صحافیوں نے دریافت کیا کہ 'اگر امریکا نے جنگ بندی کے اس نئے سمجھوتے کے لیے بات چیت میں مدد کی ہے تو کس حد تک کی ہے؟'

میڈیا نمائندوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ جب باراک اوباما کے دورِ حکومت میں جو بائیڈن نائب صدر تھے تو ان کے پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اور وہ پاکستان کو افغان جنگ میں ایک اہم اتحادی سمجھتے تھے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کا چارٹر طاقت کے استعمال کی ممانعت کرتا ہے، سلامتی کونسل میں پاکستان کا بیان

صحافی یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ ماضی میں جو بائیڈن کے پاکستان کے ساتھ قریبی روابط اب پاکستان کے لیے امریکی پالیسی پر کس طرح نظر انداز ہوں گے جب کہ وہ صدر بن چکے ہیں۔

جس کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ 'جب امریکا کے کردار کی بات آتی ہے تو ہم مسئلہ کشمیر اور دیگر معاملات پر پاکستان اور بھارت کے درمیان براہِ راست بات چیت کی حمایت جاری رکھیں گے اور ہم یقینی طور پر اعلان کردہ سمجھوتے کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں'۔

نیڈ پرائس نے کہا کہ وہ اور جو بائیڈن حکومت کے دیگر عہدیدار دونوں پڑوسی ممالک پر کشیدگی کم کرنے کے لیے گزشتہ ماہ سے زور دے رہے ہیں جب امریکی صدر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'آپ نے اس پوڈیم سے مجھے اور اس حکومت کے دیگر عہدیداران کو کہتے سنا ہوگا کہ ہم نے دونوں فریقین سے ایل او سی کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور 2003 کے جنگ بندی معاہدے کی جانب واپس جانے کا مطالبہ کیا'۔

یہ بھی پڑھیں:نئی امریکی حکومت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے؟

ساتھ ہی ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے یہ بھی کہا کہ 'ہم اس حوالے سے بالکل واضح ہیں کہ ہم ایل او سی کے پار دراندازی کرنے والے دہشت گردوں کی مذمت کرتے ہیں'۔

سوال کیا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 'غیر جانبدار' رہنے کی کوشش کس طرح امریکا کی پاکستان کے لیے پالیسی کو متاثر کرے گی؟ جس کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان ایک اہم اتحادی ہے جس کے ساتھ ہمارے بہت سے مشترکہ مفادت ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم اس معاملے میں بالکل واضح ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'تو ہم واضح طور پر زیادہ توجہ دیتے رہیں گے اور ہم پاکستانیوں پر زور دیتے ہیں کہ مشترکہ مفادات کے تمام پہلووں میں تعمیری کردار ادا کرے جس میں افغانستان، کشمیر اور ہمارے دیگر مشترکہ مفادات شامل ہیں'۔

پاکستان، بھارت کا رابطہ

خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) نے ہاٹ لائن رابطے کے ذریعے ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور تحفظات کو دور کرنے پر اتفاق کیا تھا، جو امن کی خرابی اور تشدد کا سبب بنتے ہیں۔

دونوں ممالک نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور دیگر تمام سیکٹرز کی صورتحال کا آزاد، اچھے اور خوشگوار ماحول میں جائزہ لیا۔

ساتھ ہی دونوں فریقین نے ایل او سی اور دیگر تمام سیکٹرز پر تمام معاہدوں، سمجھوتوں اور جنگ بندی پر سختی سے عمل پیرا ہونے پر اتفاق کیا۔

علاوہ ازیں دونوں فریقین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی بھی طرح کی غیرمتوقع صورتحال اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے موجودہ ہاٹ لائن رابطے کے طریقہ کار اور بارڈر فلیگ میٹنگز کا استعمال کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں