امریکا کے صدر جو بائیڈن کو مشرقی شام میں فضائی حملوں کی اجازت دینے پر مشرقی وسطیٰ کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے عراق میں امریکی اہداف کے خلاف ہونے والے راکٹ حملوں کے جواب میں مشرقی شام میں ان مراکز پر حملے کیے جو ایران کے حامی ملیشیا کے زیر استعمال ہیں۔

مزید پڑھیں: شام: کرد جنگجوؤں کے حملے میں خواتین و بچوں سمیت 40 افراد ہلاک

اس حوالے سے امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے ترجمان جون کربے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ فضائی حملے جان بوجھ کر کیے گئے ہیں جس کا مقصد مشرقی شام اور عراق دونوں میں مجموعی صورتحال کو روکنا تھا۔

خیال رہے کہ شام میں امریکی فوجی حملہ جو بائیڈن کی صدارت میں ہونے والا پہلا حملہ ہے جس پر انہیں مشرقی وسطیٰ کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

واشنگٹن میں موجود چند مبصرین کے مطابق جو بائیڈن اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین سیاسی طریقہ کار میں واضح فرق رکھنے کی کوشش جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق میں اتحادی افواج پر حملوں کے جواب میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمان کو قتل کرکے طاقت کا متنازع استعمال کیا۔

ادھر تہران یونیورسٹی کے انگریزی ادب اور مشرقی زبانوں کے پروفیسر سید محمد ماراندی نے اپنی ایک ٹوئٹ میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو بائیڈن کا یہ اقدام ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلوں کی طرح بدترین ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شام: جنگ بندی میں ناکامی، 40 امدادی ٹرک متاثرہ علاقوں میں نہیں پہنچ سکے

دوسری جانب امریکی فضائی حملے پر ردعمل دیتے ہوئے شام کا کہنا تھا کہ یہ ایک بزدلانہ کارروائی ہے، لہٰذا جو بائیڈن کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ جنگل کے قانون کی پیروی نہ کریں۔

علاوہ ازیں شامی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شام، عراقی سرحد کے قریب دیر الزور کے علاقے میں امریکا کے بزدلانہ حملے کی سخت مذمت کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو بائیڈن کی انتظامیہ کو جائز بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی کا حامل سمجھا جاتا ہے نہ کہ جنگل کا قانون نافذ کرنے والا جیسے سابق انتظامیہ نے کیا تھا۔

ایران کے ریاستی میڈیا کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے کا کہنا تھا کہ امریکا کا شام میں فضائی حملہ غیر قانونی عمل ہے اور یہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

بعد ازاں ایرانی وزیر خارجہ نے بتایا کیا کہ دفتر خارجہ کے ترجمان سعید خطیب نے امریکی فضائی حملے کے بعد فوری بعد شام کا دورہ کیا اور شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد اور سینئر صدارتی مشیر بوتھینہ شعبان سمیت دیگر حکام سے ملاقات کی۔

خطیب زادہ نے شامی حکام کو بتایا کہ ایران، شام کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔

تاہم وزرات خارجہ کی جانب سے جاری کردہ کسی بھی بیان میں شام میں ایران کے حامی اثاثوں کو نقصان پہنچنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا کی جنگ کے خاتمے کیلئے شام پر مزید سخت پابندیاں

واضح رہے کہ شام کی حکومت کو پہلے ہی امریکا اور یورپی یونین کی پابندیوں کا سامنا ہے جس کے تحت ریاست، سیکڑوں کمپنیوں اور شہریوں کے اثاثے منجمد ہیں۔

واشنگٹن اپنے شہریوں پر شام کو برآمدات اور سرمایہ کاری پر پابندی لگا چکا ہے، اسی طرح تیل اور ہائیڈروکاربن سے متعلق مصنوعات کی ترسیل بھی منجمد ہے۔

خیال رہے کہ شام میں 2011 میں حکومت کے خلاف مظاہروں سے شروع ہونے والی خانہ جنگی میں اب تک ایک اندازے کے مطابق 3 لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے اور بہت سے لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں