جَلد پابندیاں اٹھانے سے پاکستان میں کووڈ کی تیسری لہر کا خدشہ

اپ ڈیٹ 01 مارچ 2021
حکومت کو مالیاتی خدشات کے بجائے صحت عامہ کو ترجیح دینی چاہیے—فائل فوٹو: اے ایف پی
حکومت کو مالیاتی خدشات کے بجائے صحت عامہ کو ترجیح دینی چاہیے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: حکومتی ویکسینیشن مہم کے لیے ہیلتھ ورکرز تک کی جانب سے کم ردِ عمل کے ساتھ کووِڈ سے متعلق زیادہ تر پابندیاں نرم کی جارہی ہیں جس سے ماہرین صحت کو خدشہ ہے کہ کیسز کی تعداد میں دوبارہ اضافہ ہوسکتا ہے جو حکومت کو ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر کے اعلان پر مجبور کرسکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین صحت کی رائے یہ تھی کہ حکومت کو مالیاتی خدشات کے بجائے صحت عامہ کو ترجیح دینی چاہیے اور حکام کو مشورہ دیا کہ جب اس مہلک بیماری کے خلاف 70 فیصد آبادی ویکسینیٹ ہوجائے صرف اس وقت پابندیاں ہٹائی جائیں۔

یاد رہے کہ 24 فروری کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینیٹر (این سی او سی) کاروباری سرگرمیوں، اسکولوں، دفاتر اور کام کی دیگر جگہوں پر عائد زیادہ تر پابندیاں نرم کردی تھیں اور انہیں پرانے معمول کے مطابق کام کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کیسز میں کمی: تجارتی سرگرمیوں پر اوقات کار کی حد ختم، 'انڈور' شادیوں کی اجازت

این سی او سی کی ہدایات کے تحت کاروباری سرگرمیوں پر اوقات کار کی حد اور دفاتر میں 50 فیصد حاضری کی ہدایت ختم کردی گئی تھی جبکہ اسکولوں کو تمام طلبہ کے ساتھ ہفتے کے پانچوں دن فعال کرنے کا کہا گیا تھا۔

علاوہ ازیں انِ ڈور شادی کی تقریبات، سینما اور مزارات 15 مارچ سے کھولنے کی اجازت دے دی گئی تھی البتہ ریسٹورنٹس میں اِن ڈور ڈائننگ کی اجازت دینے کا فیصلہ 10 مارچ کو ہونے والے اجلاس کے نتائج میں سامنے آئے گا۔

دوسری جانب این سی او سی نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے میچز میں شرکت کرنے والے تماشائیوں کی تعداد کو 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کرنے جبکہ پلے آف میچز کے دوران اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) کے تحت تماشائیوں کی مکمل حاضری کی اجازت دی تھی۔

اس کے ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مئی کے اواخر یا جون کے اوائل میں بلدیاتی اور کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کروانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: یکم مارچ سے تعلیمی ادارے معمول کے مطابق کھولنے کا اعلان

اس حوالے سے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں لوگ ایس او پیز پر عمل نہیں کرتے بلکہ ماسک تک پہننے پر ہنستے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ برس ستمبر میں بھی جب یومیہ کیسز 100 سے 200 تھے، پابندیاں ہٹانے کے نتائج دیکھے تھے اور ایک ماہ میں ہی حکومت کو کورونا وائرس کی دوسری لہر کا اعلان کرنا پڑا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ 70 فیصد آبادی کی ویکسینیشن کے بعد ہی پابندیاں ہٹائی جائیں جو مجموعی مدافعت حاصل کرنے کا واحد طریقہ ہے، بدقسمتی سے ہم 1000 کیسز یومیہ کو ہلکا لے رہے ہیں۔

ویکسینیشن پر ردِ عمل

پاکستان میں ویکسینشین مہم کا ریسپانس بہت سست ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل نے اس کا مورد الزام حکومت کو ٹھہرایا کہ کسی بھی شخص نے معاملے کو سنجیدگی سے سنبھالنے کی زحمت نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ معروف ڈاکٹرز کے بجائے ویکسینیشن مہم میں اداکاروں کو شامل کیا گیا، کیا کوئی شخص کسی اداکار سے طبی مشورہ کرسکتا ہے مزید یہ کہ اس کے اشتہار پیک آورز کے درمیان دکھانے چاہیے، ہم نے پی ایس ایل کے دوران اشتہارات کی بارش دیکھی لیکن کوئی ایک اشتہار ویکسینیشن کے حوالے سے نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: این سی او سی کی تمام ہیلتھ ورکرز کو ویکسینیشن کیلئے رجسٹریشن کروانے کی ہدایت

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جن ہیلتھ ورکرز کو اب تک ویکسین لگ چکی ہے ان کا ڈیٹا بھی فراہم نہیں کیا گیا ہمیں معلوم نہیں کہ کتنے جنرل ڈاکٹرز اور نرسز وغیرہ ویکسینیٹ ہوچکے ہیں۔

ویکسینیشن کے لیے ناکافی ردِ عمل پر اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نے اپنے ملازمین کو انضباطی کارروائی کی بھی دھمکی دی ہے۔

پمز کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر منہاج السراج نے کہا کہ ہیلتھ ورکرز بالخصوص نرسز کی جانب سے ریسپانس انتہائی سست تھا جس کی وجہ سے ان کے پاس ویکسینیشن تیز کرنے کے لیے سرکرلر نکالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

'کیسز دوبارہ بڑھ سکتے ہیں'

اس ضمن میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے مائیکروبائیولوجسٹ ڈاکٹر جاوید عثمان نے کہا کہ بدقسمتی نے حکومت صحت عامہ کے بجائے ملک کی معاشی نمو پر توجہ رکھتے ہوئے اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وائرس کی تیسری لہر خارج از امکان نہیں ہم وائرس کو واپس پلٹنے کا ایک اور موقع دے رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اب پاکستان میں وائرس کی ایک سے زائد اقسام موجود ہیں، جو زیادہ متعدی اور قابل ترسیل ہیں، ابھی تک مسلسل کیسز سامنے آرہے ہیں جن میں ہم نے اچانک اضافہ بھی دیکھا ہے ایسے میں پابندیاں ہٹانا اچھا فیصلہ نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں