3 مارچ کو اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل نشست کے انتخابات کے نتائج نے تو جیسے ہر طرف ہلچل ہی مچادی۔ سیاسی ایوانوں سے ملکی اور سوشل میڈیا پر ہر طرف اس غیر معمولی نتائج پر کل سے ہی بات ہورہی ہے۔

اور پھر کیوں نہ ہو، کہ اس انتخابات سے متعلق پل پل کی خبر پہنچانے کے لیے ریڈ زون میں پارلیمنٹ ہاؤس کے بالکل سامنے پارلیمنٹ لاجز کے ساتھ ڈی چوک کی کشادہ سڑک پر ڈی ایس این جیز کی لمبی قطار کے ساتھ اونچائی پر بنائے گئے گرین بیلٹ پر درجنوں کیمرا مین اور ان سے زیادہ صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

یوں تو اسلام آباد سے سینیٹ کی نشستوں کا انتخاب کبھی بھی اتنا اہم نہیں رہا، لیکن اس بار بات کچھ اور ہی تھی۔ وفاقی دارالحکومت کی ایک جنرل اور ایک خواتین کی نشست پر پوری قومی اسمبلی کے 342 ارکان ووٹ کرتے ہیں، اس لیے صوبوں کی طرح ترجیحی ووٹ کا بھی یہاں جھنجھٹ نہیں ہوتا۔ 2 الگ الگ بیلیٹ پیپر ہوتے ہیں۔ یعنی بس اپنے امیدوار کو ووٹ دیا اور کام ختم۔

اس بار جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنا مشترکہ امیدوار نامزد کیا تو صورتحال بدل چکی تھی۔ قومی اسمبلی میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کی تعداد 181 جبکہ اپوزیشن کے 160 ارکان تھے، اس لحاظ سے اپوزیشن کا جیتنا ناممکن ہی تھا۔

لیکن اس اکثریت کے باوجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اندازہ تھا کہ اگر خفیہ ووٹ ڈالنے کی آئینی رسم چلی تو پھر جیتنا ممکن نہیں رہے گا، بس یہی سبب تھا کہ اس رسم کو روکنے کے لیے ایک طرف اوپن بیلیٹنگ کی خواہش کے ساتھ حکومت نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی تو دوسری جانب قومی اسمبلی میں سینیٹ انتخابات کے لیے کھلے ووٹ کی آئینی ترمیم کا بل پیش کردیا۔ پھر اس امید کے ساتھ کہ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ سے حکومت کے حق میں رائے آجائے گی، ایک صدارتی آرڈیننس بھی جاری کردیا گیا۔

لیکن حکومت کے اس بار سارے پلان چوپٹ ہوگئے۔ الیکشن کمیشن نے ناصرف اپنی آئینی پوزیشن سپریم کورٹ کے سامنے واضح کی بلکہ ضمنی انتخابات میں بھی حکومت کی خواہش کا احترام نہ ہوا۔ پھر کیا تھا، ان ڈھائی برسوں میں پہلی بار وزیرِاعظم نے اپنے ارکان کو درشن کروانے کا فیصلہ کیا۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیرِاعظم کے چیمبر سے ارکان کا ایک گروہ ملاقات کرکے باہر نکلتا تو باہر انتظار میں موجود دوسرا گروہ اندر چلا جاتا۔ وزیرِاعظم ارکان سے ان کی خواہش پوچھتے، ناراضگیاں ختم کرنے کی کوشش کرتے، مقصد صرف یہ تھا کہ ان کے امیدوار ڈاکٹر حفیظ شیخ ہر صورت یہ انتخاب جیت جائیں، کیونکہ سینیٹ کی جنرل نشست پر وزیرِ خزانہ کی ناکامی ان کی اپنی حکومت کا اخلاقی جواز کھونے کے لیے کافی تھی۔ لیکن ان تمام تر کوشش کے باوجود نتائج وہی آئے جو وزیرِاعظم نہیں چاہتے تھے۔

لیکن ایسا ہونے سے پہلے، اس کے درمیان اور بعد میں کیا کچھ ہوا، پارلیمنٹ کے اندر اور ڈی چوک پر کیا کیا ہوتا رہا؟ یہ جاننا شاید زیادہ اہم ہے۔

جب قومی اسمبلی کا ایوان، جو سینیٹ الیکشن کے لیے پولنگ اسٹیشن میں تبدیل ہوچکا تھا، اس وقت وقت دو امیدوار، یعنی یوسف رضا گیلانی اور ڈاکٹر حفیظ شیخ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اور بظاہر خوش گپیوں میں مصروف تھے، لیکن ظاہر ہے، اندرونی طور پر حالات ویسے نہیں تھے جو نظر آرہے تھے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا، ہر چہرے پر سوالیہ نشان نظر آنے شروع ہوگئے تھے۔

صبح 9 بجے سے بھی پہلے یوسف رضا گیلانی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ چکے تھے۔ گاڑی سے اترتے ہی انہوں نے صحافیوں سے انتہائی مختصر بات میں ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی جیت کا دعویٰ کیا، لیکن ان کی آنکھوں سے کئی راتوں سے نیند پوری نہ ہونے کی تھکاوٹ عیاں تھی۔ وہاں موجود تمام ہی صحافی اور دیگر افراد گیلانی صاحب کی جانب سے جیت کے اس دعوے کو سیاسی بیان قرار دے رہے تھے۔ دوسری جانب وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے 120 فیصد حفیظ شیخ کی کامیابی کا دعویٰ کیا۔

پہلا ووٹ 9 بجکر 5 منٹ پر اور 340واں ووٹ 3 بجے تک ڈل چکا تھا۔ 342 کے ایوان میں 341 ووٹ تھے کیونکہ ڈسکہ والی نشست کے ضمنی انتخاب کے نتائج کالعدم ہونے کے باعث کاسٹ نہیں ہوسکتا تھا۔

اراکین اسمبلی ووٹنگ میں حصہ لے رہے ہیں—تصویر: ڈان نیوز
اراکین اسمبلی ووٹنگ میں حصہ لے رہے ہیں—تصویر: ڈان نیوز

341واں ووٹ جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی کا تھا، لیکن وہ 5 بجے تک نہیں آئے۔ اس دوران ان سے رابطوں کی بھی کوششیں کی گئیں لیکن چترالی صاحب نے اپنا فون ہی بند کردیا تھا۔

مولانا چترالی کا انتظار تو بعد میں شروع ہوا، لیکن اس سے پہلے ہی وفاقی وزیر شہریار آفریدی اپنے ووٹ پر دستخط کرکے ووٹ گنوا چکے تھے، لیکن اس کا احساس انہیں تب ہوا جب انہوں نے یہ بات اپنے ایک ساتھی کو بتائی۔

سننے والے نے سر پر ہاتھ مارا اور کہا کہ یہ تم نے کیا کردیا؟ پھر کیا تھا، شہریار آفریدی دوڑے دوڑے پولنگ اسٹیشن پہنچے اور ریٹرننگ افسر کو پہلا ووٹ خارج کرنے اور دوبارہ ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے دوسری پرچی کے لیے استدعا کی لیکن چونکہ ووٹ بیلیٹ باکس میں جاچکا تھا اس لیے ریٹرننگ افسر کے لیے انہیں دوسرا ووٹ دینے کی اجازت ممکن نہیں تھی۔

پھر شہر یار آفریدی نے میڈیا کو بیان بھی جاری کیا کہ آصف زرداری کو تو دوسرا بیلیٹ پیپر دیا گیا لیکن یہ سہولت انہیں فراہم نہیں کی گئی۔ لیکن شہریار آفریدی اس فرق کو بھول گئے کہ جب زرداری صاحب پولنگ بوتھ میں گئے اور ان سے ووٹ کی پرچی خراب ہوئی تو انہوں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا بلکہ وہ فوری طور پر پلٹے اور ریٹرننگ افسر کو درخواست کی کہ ان سے بیلیٹ پیپر خراب ہوگیا ہے، لہٰذا انہیں ووٹ کے لیے نئی پرچی دی جائے۔

بس پھر ریٹرننگ افسر نے ان کی درخواست قبول کی اور انہیں نیا بیلیٹ پیپر دے دیا اور آصف زرداری نے ووٹ کاسٹ کرکے پرچی بیلیٹ بکس میں ڈال دی۔ الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق اگر شہریار آفریدی بھی اپنی غلطی کا احساس ووٹ بیلیٹ بکس میں ڈالنے سے پہلے کرلیتے تو انہیں بھی نئی ووٹ پرچی مل جاتی۔

صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک پولنگ اسٹیشن کے اندر اور لابیز میں حکومت اور حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے ارکان کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف جملے بازی اور طنز کے تیر چلتے رہے۔ اس دوران جنرل نشست کے دونوں امیدوار ووٹروں سے بھی ملتے رہے اور لیڈران سے بھی۔

پولنگ کے دوران اپوزیشن اور حکومت کے ارکان کبھی دوسرے کے خلاف تو کبھی اپنے حق میں نعرے بازی کرتے رہے، لیکن یہ سلسلہ پارلیمنٹ کے اندر ہی نہیں ڈی چوک پر بنے عارضی میڈیا کارنر پر جاری بھی تھا۔

جب پارلیمنٹ کے اندر مولانا چترالی کا 3 بجے سے انتظار ہونا شروع ہوا تو ڈی چوک پر آہستہ آہستہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا اور پارٹی پرچم ان کے ہاتھوں میں تھے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ جب دونوں اطراف سے شدید نعرے بازی شروع ہوگئی۔ نعروں کا شور بڑھا تو درجنوں کیمرا مین ان کی طرف دوڑے جس کے بعد نعرے مزید تیز ہوگئے، لیکن بات زیادہ آگے نہ بڑھی۔

2 گھنٹے تک مولانا چترالی کا انتظار کرنے کے بعد جب گھڑی کا چھوٹا کانٹا 5 اور بڑا 12 کے ہندسے پر آیا تو ریٹرننگ افسر نے ناصرف پولنگ ختم کرنے کا اعلان کیا بلکہ قومی اسمبلی کا ایوان، جو پولنگ اسٹیشن تھا، تمام ارکان (ووٹرز) کو کہا کہ وہ باہر نکل جائیں، جبکہ صرف امیدوار ہی اندر رہے۔

اس ہدایت کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے ارکان اپنی اپنی لابیز میں چلے گئے اور دروازے بند کردیے گئے اور گنتی کا کام شروع ہوا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ اپنی نااہلی کے بعد یوسف رضا گیلانی پہلی بار ایوان آئے تھے، جو حفیظ شیخ کے ساتھ ٹہلتے ٹہلتے پہلی رو میں آکر ایک ساتھ بیٹھ گئے۔

گنتی جب آخری مراحل میں پہنچی تو ایک مرحلے پر خواتین کی نشست پر تحریک انصاف کی امیدوار فوزیہ ارشد نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وکٹری کا نشان دکھایا، جس کو دیکھ کر پریس گیلری میں موجود صحافیوں نے اپنے طور پر اخذ کرلیا کہ حکومتی امیدوار جیت چکے ہیں۔ بریکنگ کی دوڑ میں کچھ نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو جتوا دیا، حالانکہ گنتی اب بھی چل رہی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ نے جب خوشی سے مکے دکھانے شروع کیے تو صورتحال تبدیل ہوگئی۔ یوسف رضا گیلانی، جن کے چہرے پر سنجیدگی پھیلی ہوئی تھی، اچانک ہلکی سی مسکراہٹ آئی جسے دیکھ کر لگا کہ ان کے اندر فتح کی امید کا کرنٹ دوڑ گیا ہے۔

بس پھر چند لمحوں بعد ریٹرننگ افسر نے نتائج کا اعلان کیا تو گیم پلٹ چکی تھی، شکست زدہ مسکراہٹ کے ساتھ اخلاقی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے گیلانی صاحب کو پہلی مبارکباد ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ہی دی۔ لابیز میں ٹی وی پر جب اپوزیشن کے ارکان نے نتائج سنے تو انہوں نے وہیں سے نعرے بازی شروع کردی۔ اس سے پہلے حکومتی لابیز میں جو سرکاری ممبران نعرے بازی کر رہے تھے، اب وہاں سے آوازیں آنا بند پوچکی تھیں۔

یوسف رضا گیلانی نے فتح کا اعلان سننے کے بعد اپنے آس پاس کھڑے لوگوں سے مبارکباد وصول کی اور اس کے بعد اپوزیشن لابی میں گئے، اور وہاں سے بلاول بھٹو کے چیمبر میں چلے گئے۔

مختلف چیمبرز میں جو وزرا موجود تھے، وہ بھی خاموشی سے نکل گئے جبکہ یوسف رضا گیلانی بھی کچھ دیر بعد بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ روانہ ہوگئے۔

تحریک انصاف کے جو کارکنان ڈی چوک پر موجود تھے وہ نتائج کے اعلان کے بعد آہستہ آہستہ روانہ ہونے لگے، لیکن دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کارکنان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب وہاں جشن کا سماں تھا اور حکومت کے خلاف نعرے تھے۔

لیکن اس سارے منظرنامے کا دلچسپ پہلو وہ جھٹکا تھا جو نتائج کے اعلان کے بعد حکومت اور اپوزیشن کو ایک ساتھ لگا کیونکہ جو نتیجہ آیا دونوں اطراف کے لوگوں کو ان کو توقع نہیں تھی۔

پارلیمنٹ کی کوریج کرنے والے صحافی ہوں یا اس عمارت میں عمر کا ایک بڑا حصہ گزارنے والے سیاستدان، ان کو اس طرح کے اپ سیٹ کا اندازہ نہیں تھا۔

ایک بزرگ سیاستدان نے نتائج کے بعد مجھے کہا کہ ‘یوسف رضا گیلانی کی رواداری، حفیظ شیخ کی حکومتی ارکان سے لاتعلقی، عمران خان کی اکڑ اور لگتا ہے کہ پنڈی کی دُوری کام دکھا گئی’۔

تبصرے (0) بند ہیں