طلبہ کو نکالنے کا معاملہ: یونیورسٹی انتظامیہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے، فواد چوہدری

یونیورسٹی آف لاہور نے  پروپوز کرنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہونے کے بعد دونوں کو جامعہ سے بے دخل کردیا تھا —فائل فوٹو: اے ایف پی
یونیورسٹی آف لاہور نے پروپوز کرنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہونے کے بعد دونوں کو جامعہ سے بے دخل کردیا تھا —فائل فوٹو: اے ایف پی

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی نجی جامعہ، یونیورسٹی آف لاہور (یو او ایل)، نے تین روز قبل 12 مارچ کو جامعہ کی حدود میں دیگر طلبہ کے سامنے طالب علم اور ساتھی طالبہ کی ایک دوسرے کو پروپوز کرنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہونے کے بعد دونوں کو یونیورسٹی سے بے دخل کردیا تھا۔

معاملہ کچھ یوں تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیگر طلبہ کی موجودگی میں ایک طالبہ کو فلمی انداز میں لڑکے کو پھول پیش کرتے ہوئے، طالب علم سے محبت کا اظہار کرتے اور پھر دونوں کو گلے ملتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس موقع پر موجود دیگر طلبہ کی جانب سے شور بھی کیا گیا جو ویڈیو میں واضح ہے۔

مزید پڑھیں: یونیورسٹی آف لاہور نے 'پروپوز' کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے پر طلبہ کو نکال دیا

تاہم یہ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس ویڈیو پر تبصرے بھی کیے گئے تھے۔

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

جس کے بعد یونیورسٹی آف لاہور کے رجسٹرار کے دستخط کردہ نوٹس میں طالبہ اور طالب علم کو جامعہ سے نکالتے ہوئے یونیورسٹی میں ان کے داخلے پر پابندی لگادی تھی۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ جامعہ کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر دونوں طلبہ کو اسپیشل ڈسپلنری کمیٹی نے طلب کیا تھا تاہم دونوں کمیٹی کے سامنے پیش ہونے میں ناکامی اور یونیورسٹی کے قوانین اور ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی پر دونوں کو جامعہ سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔

مزید کہا گیا تھا کہ کیمپس کے جنرل ڈسپلن رولز اور کوڈ آف کنڈکٹ کے سیکشن نمبر 16 کے تحت نکالے گئے طلبہ آئندہ یونیورسٹی یا اس کے کسی بھی کیمپس میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

یونیورسٹی آف لاہور کے اس سخت فیصلے پر سوشل میڈیا صارفین کی رائے منقسم ہوگئی کچھ نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا تو کچھ نے اس وائرل ویڈیو میں موجود طلبہ کی مخالفت کی۔

یہ بھی پڑھیں: فاسٹ یونیورسٹی کے طلبہ کو فیس بک پر ٹیچرز کا مذاق اڑانا مہنگا پڑگیا

اب وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ ہے کہ مرضی کی شادی بنیادی حقوق میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے لہذا یونیورسٹی انتظامیہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کی گئی ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے کہا کہ مرضی سے شادی ہر لڑکی کا بنیادی حق ہے، مرضی کی شادی ان حقوق میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے لہذا یونیورسٹی انتظامیہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

فاقی وزیر نے اپنی ٹوئٹ میں مزید کہا کہ لڑکیوں کو ملکیت سمجھنا اسلام کے خلاف ہے۔

یہی نہیں بلکہ ان سے قبل وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گِل نے بھی طلبہ کو یونیورسٹی سے نکالے جانے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'یہ چھوٹے بچے ہیں، زندگی کی بہت ساری گھمبیرتوں سے ناواقف ہیں، یہ درست ہے کہ انہیں اپنی تہذیب کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا لیکن انہیں یونیورسٹی سے بے دخل کر دینا اس کا حل نہیں، کوئی چھوٹی سزا دے دیں، تعلیم حاصل کرنا تو بنیادی حق ہے'۔

دوسری جانب یونیورسٹی آف لاہور سے نکالے گئے طالب علم شہریار کے نام سے منسوب فیس بک اکاؤنٹ سے ایک پوسٹ شیئر کی گئی ہے جو دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر بھی وائرل ہورہی ہے۔

شہریار نامی فیس بک اکاؤنٹ پر 2 روز قبل شیئر کی گئی پوسٹ میں کہا گیا کہ 'میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں مکمل طور پر میری غلطی تھی اور میں اس پر معذرت خواہ ہوں، میں آپ سب سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ اس کے (طالبہ) کے کردار سے متعلق باتیں نہ کریں، وہ بہت اچھی لڑکی ہے اگر کوئی بدکردار ہے تو وہ میں ہوں'۔

مزید پڑھیں: پنجاب یونیورسٹی میں 2 طلبہ تنظمیوں میں تصادم، 15 زخمی

پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ 'انہوں نے صرف سب کے سامنے اپنے احساسات کا اظہار کیا، اس کے بعد ساری غلطی میری تھی لہذا آپ مجھے بدکردار بلاسکتے ہیں، میں یہ صرف ہمدردی بٹورنے کے لیے نہیں کہہ رہا، میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک اچھی لڑکی ہے'۔

فیس بک پوسٹ میں کہا گیا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ آپ اسے بدکردار قرار دے رہے ہیں کیونکہ وہ ایک لڑکی ہے، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کے لیے دعا کریں۔

پوسٹ میں مزید کہا گہا کہ 'میں جانتا ہوں کہ یوٹیوبرز ہمارے بارے میں باتیں کریں گے، میں عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ ایسا نہ کریں اور اگر ایسا کرتے ہیں تو برائے مہربانی لڑکی کا چہرہ نظر نہ آئے اور اس کے کردار سے متعلق بات نہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے اسے اور اس کے اہلخانہ کو تکلیف پہنچے گی'۔

مزید کہا گیا کہ 'وہ پہلے ہی بہت تکلیف میں ہیں اور وہ اپنی بیٹی سے متعلق پریشان ہیں'۔

شہریار کے نام سے منسوب اکاؤنٹ کی پوسٹ میں کہا گیا کہ 'مجھے معاف کردیں کیونکہ ساری غلطی میری تھی، میں آپ سب کا بہت شکر گزار ہوں گا اگر آپ اس معاملے پر مثبت دکھائیں اور میں اپنی غلطی بھی قبول کرتا ہوں'۔

تاہم یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ یہ فیس بک اکاؤنٹ اس وائرل ویڈیو پر یونیورسٹی آف لاہور سے نکالے گئے طالبعلم شہریار احمد رانا کا ہے یا نہیں۔

اس فیس بک اکاؤنٹ کا جائزہ لیا جائے تو یہ ابھی نہیں بنا بلکہ پرانا اکاؤنٹ ہے اور سال 2020 میں بھی اس سے مختلف پوسٹس شیئر کی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود یہ مصدقہ طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ معذرت پر مبنی یہ پوسٹ یونیورسٹی آف لاہور سے نکالے گئے طالب علم نے کی ہے۔

دوسری جانب فیس بک اور ٹوئٹر پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں موجود طالبہ کے نام سے گزشتہ دنوں ہی کچھ اکاؤنٹس بنائے گئے ہیں۔

تاہم ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی نے متعدد مرتبہ شہریار اور طالبہ دونوں سے رابطے کی کوشش کی لیکن اس حوالے سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

علاوہ ازیں مختلف سیاسی و شوبز شخصیات کی جانب سے بھی دونوں طلبہ کو یونیورسٹی سے بے دخل کرنے کے فیصلے کی مذمت کی جارہی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے ویڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 'طاقتور! متاثر کن! امید اور محبت سے بھرا ہوا! نوجوانوں کو مزید طاقت!'۔

بختاور بھٹو زرداری نے اپنی ٹوئٹ میں یونیورسٹی انتظامیہ کے اقدام کو بیوقوفانہ قرار دیا تھا۔

اداکار یاسر حسین نے کہا کہ اس ملک میں عورتوں کو سڑک پر ذلیل کرنے والا مرد ہے، پیار کرنے والا بے شرم، شادی کا جھانسا دینے والا ابھی بھی یونیورسٹی میں ہے اور پرپوزل دینے والا آؤٹ۔

گلوکار شہزاد رائے نے ٹوئٹ کی کہ 'لڑکے کو سرعام ڈانٹنے مارنے پر کوئی متوجہ نہیں ہوتا، پر پیار سے گلے لگانا بہت بڑا جرم ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں