پولیس حراست میں طالبعلم کی موت: ایس ایچ او، محرر کا جسمانی ریمانڈ منظور

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2021
طالبعلم کو ایک تاجر کے ساتھ مبینہ طور پر جھگڑے کے بعد مغربی کنٹونمنٹ پولیس نے تحویل میں لے لیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
طالبعلم کو ایک تاجر کے ساتھ مبینہ طور پر جھگڑے کے بعد مغربی کنٹونمنٹ پولیس نے تحویل میں لے لیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

پشاور پولیس کی تحویل میں مبینہ طور پر خودکشی کرنے والے ساتویں جماعت کے طالب علم کو ورسک روڈ پر واقع گاؤں ملازئی میں سپردخاک کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رسائنز اسکول، ورسک روڈ کے طالب علم شاہ زیب کو لیاقت بازار میں ایک تاجر کے ساتھ مبینہ طور پر جھگڑے کے بعد مغربی کنٹونمنٹ پولیس نے تحویل میں لیا تھا۔

مزید پڑھیں: پشاور: ساتویں جماعت کے طالبعلم کی پولیس حراست میں پراسرار موت

لڑکے کی نماز جنازہ میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر محمود جان اور پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں سمیت متعدد افراد نے شرکت کی۔

پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق جھگڑے کے دوران اس نے ایک دکان دار پر پستول تان لی تھی جس کے بعد تاجروں اور بازار کے محافظوں نے طالبعلم کو قابو کر لیا تھا، تاجر اسے مغربی کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن لے گئے تھے جہاں اسلحہ ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اسے لاک اپ میں نظربند کردیا گیا تھا، اس کے بعد اس نے مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔

اتوار کو رات گئے سوشل میڈیا پر لیک کی گئی لاک اپ کی مطلوبہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکا شام 4 بجے کے قریب دروازے کی گرل پر چڑھا تاکہ گلے میں پھندہ لگا سکے اور اس کے بعد اس نے اپنے جسم کو نیچے کی جانب دھکا دیا اور دروازوں کی سلاخوں سے جھولتے ہوئے اسے تڑپتے دیکھا جا سکتا ہے، مغربی کنٹونمنٹ پولیس نے بھی متوفی کے والد کی شکایت پر ایف آئی آر درج کر لی ہے۔

شکایت کنندہ خیرال اکبر نے پولیس کو بتایا کہ 3 بجکر 25 منٹ پر پولیس اسٹیشن سے بیٹے کو موٹر سائیکل سے متعلق معاملے میں حراست میں لیے جانے کی اطلاع ملنے پر میں فوری طور پر پولیس اسٹیشن پہنچ گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: ٹیسٹ دینے کیلئے آنے والا طالبعلم پولیس کی مبینہ فائرنگ سے جاں بحق

انہوں نے بتایا کہ اگلے 40 منٹ میں وہ پولیس اسٹیشن پہنچ گئے لیکن پولیس اہلکاروں نے ان بیٹے کی موت کا انکشاف کرنے سے قبل انہیں تین گھنٹے انتظار کرنے پر مجبور کیا۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ شام کے 6 بجے کے قریب انہیں بچے کی لاش دکھائی گئی۔

انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں ان کے بیٹے کے لیے لاک اپ کے اندر خودکشی کرنا کس طرح ممکن ہے خصوصاً ایسے موقع پر جب انہیں کہا گیا تھا کہ اسے آ کر لے جائیں۔

شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ پولیس اہلکاروں نے پہلے اس کے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتارا اور پھر دعویٰ کیا کہ لڑکے نے خود کشی کی ہے۔

دریں اثنا ایک مقامی عدالت نے ویسٹ کنٹونمنٹ تھانے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر دوست محمد اور محرر اسمٰعیل کا تین دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے، اتوار کی رات دونوں کو حراست میں لیا گیا تھا جب کہ تھانہ صدر کے عملے کے دیگر تمام اراکین کو تھانہ صدر کے سربراہ نے حراست میں موت کی خبر پھیلنے کے بعد معطل کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پشاور: پولیس کا شہری پر برہنہ کرکے تشدد، ملوث اہلکار گرفتار

دریں اثنا، پشاور کے ضلعی سیشن جج نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو حراست میں ہونے والی موت کی تفتیش کی ذمہ داری سونپی۔

ایک خط میں انہوں نے جوڈیشل مجسٹریٹ سے ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی دفعہ 176 کے تحت معاملے کی تحقیقات کرنے کو کہا جس کے تحت مجسٹریٹ کے ذریعے موت کی وجوہات کی تحقیقات کا تعین کیا جاتا ہے، مجسٹریٹ کو بتایا گیا کہ وہ 15 دن میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کریں، صوبائی حکومت نے بھی واقعے کی عدالتی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا۔

نماز جنازہ کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے خیبر پختونخوا اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر محمود جان نے زیر حراست طالب علم کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی پولیس سربراہ تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں اور ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

اس موقع پر پشاور کے ایس ایس پی (آپریشنز) نے کہا کہ پولیس کی جانب سے تھانہ کے اندر سی سی ٹی وی کیمروں کی نگرانی کرنے میں ناکامی ایک لاپرواہی تھی اور متعلقہ عہدیداروں کے خلاف پہلے ہی کارروائی کی جاچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: پولیس کی حراست میں ایک برس کے دوران 4 ملزمان ہلاک

صوبائی پولیس چیف ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی اور سٹی پولیس چیف عباس احسن نے بھی متوفی کے گھر جا کر حراست میں موت پر ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔

ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے اہلخانہ کو یقین دلایا کہ اس کیس کے تمام پہلوؤں سے نمٹنے کے لیے واقعے کی عدالتی تحقیقات کی جائیں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں