فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں ہراسانی الزامات کی تحقیقات کا آغاز

20 مارچ 2021
یونیورسٹی طلبا نے الزام لگایا تھا کہ یکم اور 2 مارچ کو ان کے تھیسس کے سپروائزر نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔ - فائل فوٹو:اے پی پی
یونیورسٹی طلبا نے الزام لگایا تھا کہ یکم اور 2 مارچ کو ان کے تھیسس کے سپروائزر نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔ - فائل فوٹو:اے پی پی

یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد (یو اے ایف) کے قائم مقام وائس چانسلر (وی سی) نے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے متعدد الزامات کے بعد ایک ٹیچر کو تھیسس سپروائزر کی حیثیت سے تبدیل کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس مسئلے کو دیکھنے والی ایتھکس کمیٹی کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے اور اب نیشنل انسٹیٹیوٹ آف فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(این آئی ایف ایس اے ٹی) کے شعبہ میں فوڈ ٹیکنالوجی، ہیومن نیوٹریشن اور ڈائٹیکس کی ایم ایس سی (آنرز) کی چند طلبہ کی جانب سے لگائے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کی ذمہ داری فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو سونپ دی گئی ہے۔

طلبہ نے الزام لگایا تھا کہ سپروائزر نے یکم اور 2 مارچ کو ان کے تھیسس کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔

مزید پڑھیں: یو اے ایف انتظامیہ 'ہراسانی' کے واقعات کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے

ان میں سے تین نے طالب علموں کے امور کے ڈائریکٹر سے درخواست کے ساتھ رابطہ کیا کہ ملزم نے قابل اعتراض زبان استعمال کی اور ان کے ساتھی طلبہ کو بھی ہراساں کیا ہے۔

ان طلبہ نے اساتذہ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بطور سپروائزر انہیں برطرف کیا جائے تاکہ وہ آزادانہ طور پر تعلیم حاصل کرسکیں۔

یو اے ایف کے ترجمان نے بتایا کہ سپروائزر کو تبدیل کرکے اس کی جگہ این آئی ایف ایس اے ٹی کے ڈائریکٹر کو یہ کام سونپ دیا گیا ہے۔

تمام مردوں پر مشتمل تین رکنی حقائق تلاش کرنے والی کمیٹی میں فوڈ، نیوٹریشن اینڈ ہوم سائنسز، اینیمل ہسبینڈری کے ڈینز فیکلٹی شامل ہیں۔

انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حقائق کا پتا لگا کر قائم مقام وی سی ڈاکٹر ظفر تنویر کو پیش کریں تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کمیٹی اپنی نتائج پیش کرنے میں کتنا وقت لے سکتی ہے اور اس کا دائرہ کار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ماضی میں متعدد خواتین نے ہراساں کیا، اظفر رحمٰن کا انکشاف

ایک فیکلٹی ممبر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ کمیٹی کو کسی دوسرے اساتذہ یا عملے کے ممبر کو طلب کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کوئی بھی ایسی کمیٹی کی پروا کیوں کرے گا کیونکہ کسی بھی ڈپارٹمنٹ کو اس سے تعاون کرنے کو نہیں کہا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مشتبہ شخص کا نام اور لڑکیوں کی درخواست منسلک کرتے ہوئے ، اس کے آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کے دائرہ اختیار پہلے ہی محدود کردیے گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں