یو اے ایف انتظامیہ 'ہراسانی' کے واقعات کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2021
طلبا نے اپنے سپر وائزر کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کرنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایت درج کرائی تھی۔ - فائل فوٹو:اے پی پی
طلبا نے اپنے سپر وائزر کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کرنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایت درج کرائی تھی۔ - فائل فوٹو:اے پی پی

یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کی انتظامیہ 3 خواتین طالب علموں کو مبینہ طور پر اسسٹنٹ پروفیسر سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا ہے کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (این آئی ایف ایس اے ٹی) کے طلبo نے یو اے ایف کے طلبہ کے امور کے ڈائریکٹر شہباز طالب سے ایک درخواست کے ذریعے رجوع کیا اور کہا کہ ان کے سپروائزر، ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے مبینہ طور پر چند ساتھی طلبہ کے ساتھ قابل اعتراض زبان استعمال کی تھی اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔

شکایت کرنے والوں نے تبادلے کے علاوہ نگران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تاکہ وہ آزادانہ طور پر اپنی تعلیم جاری رکھیں اور دوسرے طلبہ کو اس طرح کے ہراسانی سے بچایا جاسکے۔

مزید پڑھیں: ماضی میں متعدد خواتین نے ہراساں کیا، اظفر رحمٰن کا انکشاف

انہوں نے ڈائریکٹر کو یکم اور 2 مارچ کو ہونے والے ہراساں کے کیسز کے بارے میں بھی آگاہ کیا جب تین طالبات نے ان کے تھیسس چیک کرنے کے لیے الگ الگ اپنے سپر وائزر کے کمرے کا دورہ کیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ سپروائزر کے خلاف فوری کارروائی کرنے کے بجائے ڈائریکٹر نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ اس واقعے کے بارے میں کسی کو نہ بتائیں خاص طور پر میڈیا کو، کیوں کہ اس سے ان کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور ان کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

انہیں بتایا گیا کہ میڈیا کی جانب سے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی صورت میں 'کوئی بھی آپ سے شادی کے لیے تیار نہیں ہوگا'۔

تاہم اس مسئلے سے آگاہ کیے جانے پر ڈائریکٹر جنرل نے شکایت کرنے والوں کو بلایا اور انہیں مبینہ ہراساں کرنے والے کے خلاف کارروائی کا یقین دلایا۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کے ہراساں کرنے سے متعلق بیان پر اظفر رحمٰن کی وضاحت

ایک طالب علم رہنما نے دعوٰی کیا کہ دراصل 6 طلبہ کو سپروائزر نے جنسی طور پر ہراساں کیا تھا لیکن ان میں سے صرف تین نے اس کے خلاف شکایت کی ہے۔

انہوں نے دعوٰی کیا کہ سپروائزر کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر طالب علموں کے امور کے ڈائریکٹر نے اس پر بے بسی کا اظہار کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وائس چانسلر نے ان کی درخواست کے باوجود ان کی بات سننے کے لیے وقت نہیں نکالا۔

انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ملازمت کے لیے خواتین سپروائزر مقرر کریں۔

مزید پڑھیں: ہراساں کیے جانے سے متعلق 15 برس تک کسی کو نہیں بتایا، عائشہ عمر

ملزم اسسٹنٹ پروفیسر کے مؤقف کے لیے موبائل نمبر پر بھیجے گئے واٹس ایپ پیغامات کا جواب موصول نہیں ہوسکا۔

یونیورسٹی کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ اس معاملے کو دیکھنے کے لیے ایک ’اخلاقیات کی کمیٹی‘ تشکیل دی گئی ہے اور اس کے نتائج کو میڈیا کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔

تاہم انہوں نے کمیٹی کا نوٹیفکیشن ڈان کے ساتھ شیئر نہیں کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں