لائسنس کے اجرا میں تاخیر نے ایل این جی ٹرمینلز کی تعمیر روک دی

اپ ڈیٹ 21 مارچ 2021
کمپنیوں کا نجی سیکٹر میں اپنے صارفین کے لیے گیس درآمد کرنے کا منصوبہ ہے —فائل فوٹو: ورلڈ بلیٹن ڈاٹ نیٹ
کمپنیوں کا نجی سیکٹر میں اپنے صارفین کے لیے گیس درآمد کرنے کا منصوبہ ہے —فائل فوٹو: ورلڈ بلیٹن ڈاٹ نیٹ

لاہور: آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے تعمیراتی لائسنس کے اجرا میں تاخیر اور سرکاری سوئی گیس کمپنیوں کی جانب سے گیس ٹرانسپورٹیشن ایگریمنٹ (جی ٹی اے) کو روکے جانے کی وجہ سے 2 نئے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) ٹرمینلز کی تعمیر پر پیش رفت رک گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوگرا نے انرجاز اور تعبیر کو ایل این جی مارکیٹنگ کا لائسنس جاری کیا تھا تاہم کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ ریگولیٹر تعمیراتی لائسنس کے اجرا میں تاخیر کررہا ہے جو ان کے متعلقہ منصوبوں میں حتمی سرمایہ کاری کا فیصلہ لینے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

انرجاز کچھ کمپنیوں کے کنسورشیم کی تشکیل دی گئی کمپنی ہے جس میں لکی سیمنٹ، سفائر اور ہالمور پاور شامل ہیں جبکہ تعبیر میں مٹسوبشی کمپنی معاونت کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ورچوئل ایل این جی پائپ لائنز کیلئے پرووژنل لائسنس کا اجرا

دونوں کمپنیوں کا نجی سیکٹر میں اپنے صارفین کے لیے 'وصول کرو اور ادا کرو' کی بنیاد پر گیس درآمد کرنے کا منصوبہ ہے لیکن انہیں گزشتہ 5 سے 6 برسوں سے ریگولیٹری اور دیگر منظوریاں لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ایک سینئر ایگزیکٹو نے ڈان کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'اوگرا نے لائسنس جاری کرنے سے قبل ہمیں سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے ساتھ جی ٹی اے پر دستخط کرنے کا کہا تھا'۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سرکاری گیس کمپنیاں جی ٹی اے میں تاخیر کے لیے مختلف بہانے استعمال کررہی ہیں جس کے بغیر دونوں کمپنیوں میں سے کوئی بھی ٹرمینل بنانے کے لیے اپنا حتمی سرمایہ کاری کا فیصلہ نہیں سکتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک ہمارے پاس تعمیراتی لائسنس اور گیس کمپنیوں کی جانب سے جی ٹی اے نہیں ہوگا ہم اپنے صارفین کی مصدقہ طلب کے باوجود گیس درآمد اور فروخت نہیں کرسکتے۔

مزید پڑھیں: سی این جی اسٹیشنز کو جلد نئے لائسنس جاری کیے جائیں گے

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی کی انتظامیہ فیصلے لینے سے خوفزدہ ہیں کیوں کہ نجی کمپنیاں مارکیٹ میں ان کی اجارہ داری ختم کرسکتی ہیں ساتھ ہی وہ قومی احتساب بیورو (نیب) سے بھی ڈری ہوئی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نجی سیکٹر سرکاری شعبے کے مقابلے میں شعبہ توانائی کو 10 فیصد سستے دام میں ایل این جی فراہم کرسکتا ہے۔

دوسری جانب دونوں کمپنیاں حکومت کے ساتھ موجودہ فالتو ٹرمینلز اور پائپ لائنز کی خریداری کے لیے بھی بات چیت کررہی ہیں تا کہ صنعتی اور توانائی صارفین کے لیے ایل این جی کارگوز درآمد کرسکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں