یوسف گیلانی سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر مقرر،’ پی ڈی ایم کی فتح ہوئی’

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2021
رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ تمام اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلوں گا اور پی ڈی ایم رہنماؤں کو اعتماد میں لوں گا — فوٹو: ڈان نیوز
رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ تمام اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلوں گا اور پی ڈی ایم رہنماؤں کو اعتماد میں لوں گا — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی درخواست پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اپوزیشن لیڈر کے لیے یوسف رضا گیلانی کے نام کا اعلان کردیا۔

اس سلسلے میں سینیٹ سیکریٹریٹ نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔

قبل ازیں رہنما پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمٰن نے اپنے امیدوار کے لیے 30 اراکین سینیٹ کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ پیپلزپارٹی کا حق تھا، پی ڈی ایم کا کوئی جنازہ نہیں پڑھا گیا۔

پی پی پی ذرائع نے بتایا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں دستخط کرنے والے اراکین میں سینیٹر ہدایت اللہ، ہلال الرحمٰن، مشتاق احمد اور نوابزادہ ارباب عمر فاروق بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ ایوان بالا میں اپوزیشن جماعتوں میں پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 21 ہے۔

شیری رحمٰن نے بتایا تھا کہ انہیں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے جماعت اسلامی کے ایک، سابق فاٹا کے 2 اور دلاور خان کے آزاد گروپ کے 4 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

شیری رحمٰن نے یہ بھی بتایا کہ پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر کے لیے 30 اراکین کے دستخط کے ساتھ درخواست جمع کروائی گئی ہے۔

دوسری جانب اس حوالے سے جب سینیٹر یوسف رضا گیلانی سے سوال کیا گیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے خود نہیں معلوم کہ کتنے ارکان نے حمایت کے لیے دستخط کیے ہیں، مجھے شیری رحمٰن نے یہاں بلایا ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی میں ٹھن گئی

‘پی ڈی ایم رہنماؤں کو اعتماد میں لوں گا’

بعد ازاں اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ‘پی ڈی ایم نے مجھے سینیٹ کے لیے متفقہ امیدوار نامزد کیا، متحد ہونے کی وجہ سے ہم نے وہ کامیابی حاصل کی’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا موقف تھا کہ پارلیمان کے اندر اور باہر جدوجہد جاری رکھنی چاہیے، پارلیمنٹ کی آواز عوام کی آواز ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، 26 مارچ کو لانگ مارچ اور دھرنے کا کہا گیا اور ہم نے تیاری بھی کی، لیکن پھر پی ڈی ایم کے اجلاس میں کہا گیا لانگ مارچ اور دھرنے کا فائدہ نہیں بلکہ استعفے دیے جائیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اپوزیشن لیڈر کا ایک معاملہ بھی تھا جس کی ذمہ داری راجہ پرویز اشرف کو دی گئی، اپوزیشن لیڈر کے لیے ایک گروپ بنا تھا، اجلاس میں کہا گیا کہ اپوزیشن لیڈر کا فیصلہ چیئرمین انتخاب کے بعد کیا جائے، جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے واضح کہا کہ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ اپوزیشن کی بڑی جماعت کے پاس جانا چاہیے’۔

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اس سلسلے میں سابق صدر و پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن سے رابطہ کیا، انہوں نے دیگر جماعتوں سے بھی رابطہ کیا، بعض جماعتوں نے خود ہم سے رابطہ کرکے حمایت کی یقین دہانی کرائی’۔

انہوں نے کہا کہ ‘مولانا فضل الرحمٰن نے آصف زرداری سے رابطہ کیا تھا، کہا گیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) پارٹی سے حمایت لی گئی ہے، سرکاری اپوزیشن کا تاثر دینا مناسب نہیں ہوگا، پی ڈی ایم کو متحد رکھنا چاہیے، ہم ساتھ ہیں اور ساتھ چلیں گے، میرا اپوزیشن لیڈر بننا پی ڈی ایم کی فتح ہے، ایک اقدام پر کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے جبکہ تمام اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلوں گا اور پی ڈی ایم رہنماؤں کو اعتماد میں لوں گا’۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کی اختلافات دور کرنے کی کوشش

سابق وزیر اعظم نے ایک سوال پر کہا کہ ‘چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملاقات ایک طریقے کا حصہ تھا، طریقہ کار کے تحت فارم چیئرمین سینیٹ کے پاس ہی جمع کرانا تھے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کیمروں کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی بنانے کا کہا گیا، ہمیں کیمروں کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی’۔

واضح رہے کہ ایوانِ بالا کے نئے اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اختلافات ابھر کے سامنے آئے تھے۔

قبل ازیں مسلم لیگ (ن) سینیٹ سیکریٹریٹ میں سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کو اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی درخواست جمع کرواچکی تھی۔

اعظم نذیر تارڑ کی نامزدگی کے لیے مسلم لیگ (ن) کے 17 اراکین سینیٹ نے دستخط کیے اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 5 سینیٹرز اور نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2، 2 اراکین نے حمایت کی یقین دہانی کروائی تھی۔

مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ اپوزیشن لیڈر کے لیے اعظم تارڑ کو نامزد کیا تھا لیکن پیپلز پارٹی نے نہ صرف اسے مسترد کردیا تھا بلکہ اس پر احتجاج بھی کیا تھا کیوں کہ وہ بینظیر بھٹو قتل کیس کے ملزمان پولیس افسران کے وکیل تھے۔

یاد رہے کہ رواں ماہ 3 تاریخ کو سینیٹ انتخابات ہوئے تھے جس میں سب سے نمایاں انتخاب یوسف رضا گیلانی کا تھا جنہوں نے قومی اسمبلی میں حکومتی اراکین کی اکثریت کے باوجود حکومت کے امیدوار ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو شکست دے دی تھی۔

بعدازاں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے چیئرمین سینیٹ کے چناؤ کے لیے مشترکہ طور پر یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ نامزد کیا تھا تاہم یہاں اپوزیشں اراکین کی اکثریت کے باوجود حکومتی امیدوار صادق سنجرانی نے انہیں شکست دے دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں