ہیومن رائٹس واچ کا قطر میں مرد کی سرپرستی کا قانون ختم کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 29 مارچ 2021
مرد کی سرپرستی سے عورتوں کی زندگیوں اور پسند پر مردانہ اختیارات کو تقویت ملتی ہے، ایچ آر ڈبلیو - فائل فوٹو:رائٹرز
مرد کی سرپرستی سے عورتوں کی زندگیوں اور پسند پر مردانہ اختیارات کو تقویت ملتی ہے، ایچ آر ڈبلیو - فائل فوٹو:رائٹرز

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے قطر پر زور دیا ہے کہ وہ مرد کی سرپرستی کے قانون کو ختم کریں جو خواتین کو بنیادی حقوق جیسے شادی، سفر اور تولیدی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے حوالے سے آزادانہ فیصلے کرنے سے روکتی ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق نیو یارک میں مقیم ایچ آر ڈبلیو کا کہنا تھا کہ تعلیم اور معاشرتی تحفظ سمیت خواتین کے حقوق کے لیے اقدامات میں پہل کرنے کے بعد قطر اب خلیجی ہمسایہ ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے کیونکہ سعودی عرب نے 2019 میں بالغ خواتین کو بغیر کسی سرپرستی کے سفر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

ایچ آر ڈبلیو کی جانب سے انٹرویو کی گئی 50 خواتین میں سے ایک نے ملک میں خواتین کی زندگی کو 'مستقل طور پر قرنطینہ' میں ہونے کے مترادف قرار دیا۔

مزید پڑھیں: قطر نے ملازمت کے ظالمانہ قوانین کیوں تبدیل کیے؟

40 سالہ خاتون نے بتایا کہ ان کے والدین نے انہیں بیرون ملک تعلیم کے لیے اسکالرشپ حاصل کرنے سے روک دیا تھا۔

تنظیم کا کہنا تھا کہ 25 سال سے کم عمر کی غیر شادی شدہ قطری خواتین کو بیرون ملک سفر کرنے کے لیے مرد سرپرست کی اجازت کی ضرورت ہے، خواتین پر شوہر یا والد کی جانب سے کسی بھی عمر میں سفری پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔

اگرچہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جہاں کام کرنے یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت کی ضرورت ہو چند خواتین نے کہا کہ انہیں ابھی بھی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ 'مرد کی سرپرستی سے عورتوں کی زندگیوں اور پسند پر مردانہ اختیارات کو تقویت ملتی ہے جس سے تشدد کو ہوا مل سکتی ہے اور اس سے خواتین کو ان کے اہل خانہ اور شوہروں سے بدسلوکی سے بچنے کے لیے بہت کم قابل عمل آپشنز رہ جاتے ہیں'۔

قطر کا انسانی حقوق کا ریکارڈ گزشتہ سالوں سے خاصا نمایاں رہا ہے کیونکہ خلیجی ریاست 2022 کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قطر سے تنازع ختم، خلیجی ممالک کے سربراہان کی سعودی عرب آمد

قطر حکام نے ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ کو غلط قرار دیا مگر کہا کہ وہ ان کیسز کی تحقیقات کریں گے۔

گورنمنٹ کمیونیکیشن آفس (جی سی او) نے ایک بیان میں کہا کہ 'حکومت ان پالیسیوں کا تعارف، انہیں نافذ کرنے اور وسعت دینے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے جو خواتین کو اپنے فیصلے کرنے کے لیے آزادی فراہم کرتی ہیں'۔

قطر اولمپکس کمیٹی نے اتوار کے روز صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے جائزہ لینے کا اعلان کیا تھا۔

اس کے علاوہ گزشتہ سال قطر نے خواتین کو بغیر اجازت ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا اہل بنایا تھا تاہم خلیجی ریاستوں کی طرح ان کو بھی شادی کے لیے سرپرست کی منظوری درکار ہے۔

ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ خواتین اپنے بچوں کے بنیادی سرپرست کی حیثیت سے کام نہیں کرسکتی ہیں چاہے ان کی قانونی تحویل بھی ان کے پاس ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں