پاکستان پرامن اور خودمختار افغانستان کی حمایت جاری رکھے گا، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 30 مارچ 2021
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا 9ویں ہارٹ آف ایشیا- استنبول پراسیس وزارتی کانفرنس کے دوران ایک انداز— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا 9ویں ہارٹ آف ایشیا- استنبول پراسیس وزارتی کانفرنس کے دوران ایک انداز— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر پرامن، خودمختار اور خوشحال افغانستان کی حمایت جاری رکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان، افغانستان کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہا ہے، پاکستان نے ان کی ترقی اور تعمیر نو کے لیے ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے، ہم نے دوطرفہ اور ٹرانزٹ تجارت کو آسان بنانے کے لیے پانچ بارڈر کراسنگ پوائنٹس بھی کھولے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان، افغانستان کا سرپرست نہیں دوست بننا چاہتا ہے، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں منعقدہ 9ویں ہارٹ آف ایشیا- استنبول پراسیس وزارتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات افغانستان کے ساتھ بامعنی تعلقات استوار کرنے کی پاکستان کی خواہش کا عملی ثبوت ہیں۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق شاہ محمود قریشی پاکستان کے وفد کی سربراہی کر رہے ہیں جس میں سیکریٹری خارجہ سہیل محمود، تاجکستان میں پاکستان کے سفیر عمران حیدر اور دفتر خارجہ کے دیگر عہدیدار بھی شامل تھے۔

اپنے خطاب کے دوران شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ہارٹ آف ایشیا استنبول عمل افغانستان میں امن، استحکام اور خوشحالی کے مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں شریک ممالک کو اکٹھا کرنے کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے افغانستان ایک اہم ہمسایہ اور ایک برادر ملک ہے جس کے ساتھ مضبوط تاریخی روابط ہیں، کوئی دوسری قوم افغانستان کے ساتھ اس طرح کے بدستور تعلقات رکھنے کا دعویٰ نہیں کرسکتی ہے اور کوئی بھی قوم پاکستان سے زیادہ افغانستان میں امن کی خواہش مند نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان امن عمل فی الحال ایک اہم فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے، 40 سالوں سے تنازعات اور عدم استحکام کا سامنا کرنے کے بعد افغانستان کبھی بھی ان تنازعات کا رخ موڑنے کے اتنا قریب نہیں رہا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کیسے بہتر کی جاسکتی ہے؟

وزیر خارجہ نے ستمبر 2020 میں افغان رہنماؤں کے اجتماع اور اس سال کے اوائل میں جنوری میں دوحہ امن معاہدے کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب تک ہونے والی پیشرفت نے واقعتاً افغان قیادت کے لیے ایک جامع، وسیع البنیاد اور جامع مذاکرات کے حامل سیاسی تصفیے کے حصول کا تاریخی موقع پیدا کیا ہے، ہم اس یقین کے ساتھ اس مرحلے پر پہنچے ہیں کہ افغانستان کے تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر افغان رہنماؤں تک رسائی کی کوششوں کے سلسلے میں پاکستان نے مستقل طور پر ان پر زور دیا ہے کہ وہ کسی مثبت نتیجے کو حاصل کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھیں، ہمارا انہیں پیغام ہے کہ اس عمل کو ٹھوس اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھایا جائے۔

شاہ محمود قریشی نے امن عمل کو درپیش مشکل چیلنجز کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے افغانستان کے اندر اور باہر دونوں ہی نے انتشار پیدا کرنے والوں کے کردار کے حوالے سے مستقل خبردار کیا ہے، ہم افغانستان میں تشدد کے بڑھتے ہوئے سلسلے پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ داعش اور القاعدہ کوئی بھی جگہ بنانے میں کامیابی ہوتے ہیں تو دہشت گردی کے خطرے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

وزیر خارجہ نے عالمی برادری سے امن عمل کو آسان بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے تو ہم نے اسے امید کا لمحہ قرار دیا تھا، ہماری اجتماعی کوشش ہونی چاہیے کہ اس امید اور غیر معمولی موقع کو ضائع نہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں: امریکا افغانستان سے نکلنے کے لیے اتنا بے چین کیوں؟

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ہر کسی کو صبر، عزم اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اور سمجھوتے کے جذبے کو آگے بڑھانا ناگزیر ہو گا۔

پاکستان کے مؤقف کو عالمی سطح پر تسلیم کر لیا گیا

دریں اثنا شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کے دیرینہ مؤقف کو عالمی برادری کی جانب سے تسلیم کیا جانا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

کانفرنس کے آغاز سے قبل گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پوری دنیا پاکستان کے مؤقف کو جانتی ہے اور افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی قربانیاں اور کوششیں پوشیدہ نہیں ہیں۔

افغان امن عمل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہر ایک ایک بات پر متفق ہے کہ امن کے بغیر آگے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ کئی دہائیوں سے جاری تنازع کا فوجی حل نہیں ملا اور پاکستان برسوں سے جو کچھ کہہ رہا ہے اسے دنیا تسلیم کررہی ہے جو ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'اقوامِ متحدہ نے افغانستان سے خطرات کے پاکستانی مؤقف کی تائید کردی'

کانفرنس سے وابستہ توقعات کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی توجہ مستقبل اور اس خطے پر مرکوز ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر خطے میں امن و استحکام ہوتا ہے تو علاقائی روابط کی ہماری خواہش کو تقویت ملے گی جبکہ اس سے پاکستان اور خطے کو فائدہ پہنچے گا۔

افغان صدر سے ملاقات

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے منگل کو کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر افغانستان کے صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔

ملاقات کے دوران پاک، افغان دو طرفہ تعلقات، افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے، بالخصوص افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کے سلسلے میں “ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسس کے وزارتی اجلاس کا انعقاد ایک مثبت اور احسن اقدام ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان، پاکستان کے مفاد میں ہے اور پاکستان خطے کے امن و استحکام کے لیے افغانستان میں قیام امن کو ناگزیر سمجھتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، بین الافغان مذاکرات میں پیشرفت کیلئے پُرامید

انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ پاکستان جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی حل کا حامی ہے اور بین الافغان مذاکرات کے نتیجے میں مثبت پیش رفت افغان امن عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان امن عمل سمیت خطے میں امن کیلئے اپنی مخلصانہ کاوشیں جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے افغان امن عمل میں پاکستان کے مستقل تعاون کا شکریہ ادا کیا اور وزیر اعظم عمران خان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔

افغان وزیر خارجہ محمد حنیف آتمر سے تبادلہ خیال

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کانفرنس کے موقع پر افغان ہم منصب محمد حنیف آتمر سے ملاقات کی جس میں دو طرفہ تعلقات اور افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوئی۔

دونوں وزرائے خارجہ نے ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسس اجلاس کے انعقاد کو سراہتے ہوئے اسے مثبت سمت میں اہم قدم قرار دیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ تاریخی اور دیرینہ برادرانہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور پاکستان سمجھتا ہے کہ خطے میں امن و امان کا انحصار افغانستان میں مستقل قیام امن سے منسلک ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج افغان امن عمل میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کو عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے اور بین الافغان مذاکرات کے ذریعے افغان قیادت کے پاس قیام امن کا ایک نادر موقع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فریقین کو "اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے سلسلے میں سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی اور پاکستان اس سلسلے میں اپنا مصالحانہ کردار خلوص نیت سے نبھاتا رہے گا۔

افغان وزیر خارجہ نے افغان امن عمل میں پاکستان کی مخلصانہ کاوشوں کو سراہتے ہوئے پاکستان کی قیادت اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

پاکستان اور ایران کا قیام امن کے لیے کاوشیں بروئے کار لانے پر اتفاق

وزیر خارجہ نے کانفرنس کے موقع پر ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف سے بھی ملاقات کی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر اتفاق کیا گیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، ایران کے ساتھ دو طرفہ برادرانہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور ان دو طرفہ تعلقات کی بنیاد یکساں تاریخ، جغرافیائی قربت اور مشترکہ مفادات پر قائم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان ادارہ جاتی میکانزم سے مختلف شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان اور ایران کے مابین تجارتی و اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے کثیر مواقع موجود ہیں جن سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر خارجہ نے توقع ظاہر کی کہ پاک ایران باڈر مارکیٹ کے جلد قیام سے دونوں ممالک یکساں مستفید ہوں گے۔

شاہ محمود نے بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی مؤقف کی مسلسل حمایت پر، ایرانی وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا جبکہ دونوں وزرائے خارجہ کے مابین خطے کی صورتحال بالخصوص افغان امن عمل پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ بین الافغان مذاکرات میں اب تک ہونے والی پیش رفت حوصلہ افزا ہے اور نتیجہ خیز بین الافغان مذاکرات افغانستان میں دیرپا امن کیلئے ناگزیر ہیں۔

دونوں وزرائے خارجہ نے دو-طرفہ تعاون کے فروغ اور خطے میں قیام امن کے لیے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے پر اتفاق کیا۔

پاکستان اور آزربائیجان کے درمیان براہ راست پروازوں کے آغاز پر تبادلہ خیال

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کانفرنس کے موقع پر آزربائیجان کے وزیر خارجہ جیہون بیراموف سے بھی ملاقات کی جس میں دو طرفہ تعلقات، مختلف شعبہ جات میں تعاون کے فروغ سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔

وزیر خارجہ نے آزربائیجان کے وزیر خارجہ کو نوروز کی مبارکباد بھی دی۔

انہوں نے رواں سال جنوری میں آزربائیجان کے وزیر خارجہ کے دورہ ء پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی و اقتصادی تعاون کے فروغ کے لیے طے کردہ اہداف کے حصول کے سلسلے میں مشترکہ کوششیں بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور آزربائیجان کے درمیان براہ راست پروازوں کا آغاز مختلف شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون اور سیاحت کے فروغ میں معاون ثابت ہو گا۔

دونوں وزرائے خارجہ کے مابین آزربائیجان کے سرحدی علاقوں کے واگزار ہونے کے بعد علاقائی صورتحال، افغان امن عمل اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔

شاہ محمود قریشی اور جیہون بیراموف نے دو-طرفہ تعاون کے فروغ کے لیے باہمی مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں