پاکستان، بین الافغان مذاکرات میں پیشرفت کیلئے پُرامید

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2021
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلیفون پر گفتگو کی— فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلیفون پر گفتگو کی— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پاکستان نے کہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں پیشرفت سے تشدد میں کمی آئے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے افغان ہم منصب حنیف اتمر سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار کیا اور دوحہ میں جاری بین الافغان مذاکرات میں پیشرفت کا مطالبہ کیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کے استعمال کی مذمت

دفتر خارجہ کے مطابق شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مذاکرات میں پیشرفت سے تشدد میں کمی واقع ہو گی اور جنگ بندی کا باعث بنے گی۔

دوحہ میں مذاکرات کے دوسرے دور کو شروع ہوئے قریب تین ہفتے ہوئے ہیں جس میں بات چیت کا ایجنڈا طے کرنے پر توجہ دی جارہی ہے لیکن بمشکل ہی کوئی پیشرفت ہوئی ہے، دریں اثنا افغانستان میں تشدد بہت بڑھ رہا ہے جو ممکنہ طور پر امن عمل کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

سست رفتار مذاکراتی عمل جو پچھلے سال ستمبر میں شروع ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہونے والے تشدد کی وجہ سے افغان باشندوں اس مذاکرات سے امید ختم ہو گئی، صدر اشرف غنی اور دیگر افغان عہدیداروں نے عوامی سطح پر اپنی بدگمانیوں کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔

افغان وزارت خارجہ نے ایک روز قبل ہی طالبان پر تشدد کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے پُرامن مستقبل کا انحصار کس پر ہے؟

اس میں کہا گیا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اور ہمارے تمام بین الاقوامی شراکت دار طالبان پر زور دیں گے کہ وہ تشدد میں کمی اور ملک گیر جنگ بندی یقینی بنانے کے ان کے کردار کو تسلیم کریں گے اور دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کر کے بامقصد امن اور سیاسی معاہدے کی تشکیل کے لیے راہیں ہموار کریں گے۔

افغانستان کا یہ بیان نئے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور ان کے افغان ہم منصب حمد اللہ محیب کے درمیان گفتگو کے بعد سامنے آیا ہے جس میں امریکی مشیر نے فروری میں طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر نظرثانی کا عندیا دیا تھا۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ایمیلی ہورن نے کہا تھا کہ نئی انتظامیہ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ آیا طالبان دہشت گرد گروہوں سے تعلقات منقطع کرنے، افغانستان میں تشدد کو کم کرنے اور افغان حکومت اور دیگر متعلقین کے ساتھ بامقصد مذاکرات کا حصہ بننے کے اپنے وعدوں پر عمل پیرا ہیں۔

کابل چاہتا ہے کہ طالبان فوری طور پر جنگ بندی پر راضی ہوجائیں جبکہ طالبان کو خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے وہ مذاکرات میں اہم فائدہ اٹھانے سے محروم ہو جائیں گے۔

مزید پڑھیں: افغانستان کی 70 سالہ خاتون کمانڈر کی طالبان میں شمولیت

بین الافغان مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے حنیف اتمر کو بتایا کہ اس عمل نے افغانستان میں دیرپا امن کی واپسی کے لیے ایک موقع فراہم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل کی حمایت اور افغانستان کے ساتھ باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔

انہوں نے تجارتی تعلقات کی بھی بات کی اور حنیف اتمر کو پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں تجارت کے حجم میں اضافے کے لیے بارڈر مارکیٹ کے قیام کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی تجویز سے آگاہ کیا۔

شاہ محمود قریشی نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ جلد ہی اس سلسلے میں ایک مفاہمت نامے کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: گاڑی میں نصب بم پھٹنے سے سابق نیوز اینکر سمیت 3 افراد ہلاک

انہوں نے پاکستانی قیدیوں کا معاملہ بھی اٹھایا جو معمولی جرائم کی وجہ سے افغان جیلوں میں بند ہیں، دفتر خارجہ نے بتایا کہ انہوں نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ قیدیوں کو جلد ہی صدارتی فرمان کے مطابق رہا کیا جائے گا جس سے انہیں پاکستان واپس آنے اور اپنے کنبہ کے ساتھ دوبارہ ملنے کا موقع ملے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں