پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے پر اسد عمر کا برطانوی حکومت سے سوال

اپ ڈیٹ 03 اپريل 2021
وفاقی وزیر نے برطانوی رکن  پارلیمان کا خط شیئر کر کے سوال اٹھایا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی وزیر نے برطانوی رکن پارلیمان کا خط شیئر کر کے سوال اٹھایا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر اسد عمر نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان کو سفری پابندی کی 'ریڈ لسٹ' میں شامل کرنے کے فیصلے پر سوال کھڑا کردیا۔

مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر برطانوی رکن پارلیمان ناز شاہ کا خط شیئر کر کے انہوں نے کہا کہ 'ہر ملک کو اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے فیصلے لینے کا حق ہے'

اسد عمر کا کہنا تھا کہ 'تاہم برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان سمیت کچھ ممالک کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کے حالیہ فیصلے سے یہ جائز سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ممالک کا انتخاب سائنسی بنیاد پر ہوا یا خارجہ پالیسی کی بنیاد پر کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:برطانیہ نے پاکستان کو سفری پابندیوں کی 'ریڈ لسٹ' میں شامل کرلیا

خیال رہے کہ گزشتہ روز برطانوی حکومت نے پاکستان، بنگلہ دیش، کینیا اور فلپائن کو ریڈ لسٹ میں شامل کرتے ہوئے ان ممالک سے برطانوی یا آئرش شہریوں کے سوا دیگر مسافروں کی آمد پر پابندی عائد کردی تھی۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سفری پابندی عائد ہونے کی قیاس آرائیاں مارچ کے اوائل میں سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں جب پنجاب اور اسلام آباد میں کورونا وائرس کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے برطانوی سیکریٹری اسٹیٹ برائے خارجہ، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ افیئرز کو 30 مارچ کو لکھے ایک خط میں کہا تھا کہ پاکستان ریڈ لسٹ میں شامل ہونے والا ہے اور میرے حلقے میں بڑی تعداد میں پاکستانی کمیونٹی رہتی ہے اس لیے میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس سائنسی ڈیٹا کی بنیاد پر لیا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کا برطانوی مہاجرین کیلئے اضافی پروازیں چلانے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ مارچ کے اوائل میں بھی میں نے یہی سوالات پارلیمانی سوالات کے طور پر اٹھائے تھے جس پر مجھے کہا گیا کہ ان سوالات کا جواب دینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

ناز شاہ نے کہا تھا کہ گزشتہ 7 روز کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق فرانس، جرمنی اور بھارت میں فی لاکھ افراد میں انفیکشن کی تعداد خاصی بلند ہے۔

خط میں درج اعداد و شمار کے مطابق مختلف ممالک میں ایک لاکھ افراد میں کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح درج ذیل ہے:

  • جرمنی: 137

  • فرانس: 403

  • برطانیہ: 54

  • بھارت: 24

  • کینیا: 17

  • بنگلہ دیش: 15

  • پاکستان: 13

خط میں کہا گیا کہ یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ پاکستان میں وائرس کی جنوبی افریقی قسم بھی مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ فرانس اور دیگر ممالک کے لیے ہے۔

ناز شاہ نے کہا کہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت برطانیہ نے فرانس، جرمنی اور بھارت کو ریڈ لسٹ میں کیوں شامل نہیں کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ حکومت کہ رہی ہے اس کے برعکس یہ واضح ہے کہ فیصلے سائنسی اعداد و شمار کی بنیاد پر نہیں لیے جارہے۔

یہ بھی پڑھیں: سول ایوی ایشن نے سفری پابندیوں میں 5 اپریل تک توسیع کردی

ان کا کہنا تھا کہ یہ جان بوجھ کر پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کے خلاف امتیازی سلوک ہے۔

خیال رہے کہ ب گزشتہ روز پاکستان میں برطانوی ہائی کشمنر نے ایک ویڈیو پیغام میں اعلان کیا تھا کہ برطانوی حکومت نے کووڈ-19 کیسز پر متعلق نظرثانی کے بعد پاکستان کو سفری پابندیوں کی ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ریڈ لسٹنگ کا مطلب یہ ہے کہ صرف انگلینڈ اور آئرلینڈ کے شہریوں اور برطانیہ میں رہائش کے حقوق رکھنے والے افراد کو برطانیہ آنے کی اجازت ہوگی۔

برطانوی ہائی کمشنر نے کہا تھا کہ اگر وہ برطانیہ آمد سے 10 روز قبل پاکستان میں مقیم رہے ہوں گے تو مسافروں کو لازمی طور پر 10 روز تک ہوٹل میں قرنطینہ کرنا ہوگا اور اس قیام کی ادائیگی بھی خود کرنی ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں