عالمی قوتوں کے ساتھ ابتدائی جوہری مذاکرات ‘تعمیری’ رہے، ایران

اپ ڈیٹ 07 اپريل 2021
ایران، چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے نمائندوں کے درمیان ویانا شہر کے گرینڈ ہوٹلز میں بات چیت ہوئی۔ - فوٹو:رائٹرز
ایران، چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے نمائندوں کے درمیان ویانا شہر کے گرینڈ ہوٹلز میں بات چیت ہوئی۔ - فوٹو:رائٹرز

2015 کے ایران کے جوہری معاہدے میں شامل عالمی قوتیں اور ایران نے آسٹریا کے شہر ویانا میں بات چیت کا دوبارہ آغاز کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایران، چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے نمائندوں کے درمیان ویانا شہر کے گرینڈ ہوٹلز میں بات چیت ہوئی۔

ایران کے نائب وزیر خارجہ نے اجلاس کے بعد سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ یہ ممالک مشترکہ جامع منصوبے (جے سی پی او اے) کی بحالی کے طریقوں پر تبادلہ خیال کریں گے جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر مئی 2018 میں ترک کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایران: قانون سازوں کا عالمی جوہری ایجنسی کے ساتھ معاہدے پر صدر کےخلاف کارروائی کا مطالبہ

ویانا میں ایرانی وفد کی قیادت کرنے والے عباس آراغچی نے پریس ٹی وی کو بتایا کہ 'ویانا میں مذاکرات تعمیری تھے، ہماری اگلی ملاقات جمعہ کو ہوگی'۔

انہوں نے ویانا مذاکرات کے آغاز سے کچھ ہی دیر قبل امریکا کی جانب سے ایران کو کی جانے والی پیش کش کے حوالے سے کہا کہ 'ہم یورینیم کی 20 فیصد افزودگی روکنے کے بدلے میں ایران کا (جنوبی کوریا میں منجمد) ایک ارب ڈالر کو جاری کرنے سے متعلق کسی بھی معاہدے کو مسترد کرتے ہیں'۔

روس کے نمائندے میہکائیل الیانوف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ یہ ملاقات 'کامیاب' رہی۔

انہوں نے کہا کہ 'جے سی پی او اے کی بحالی فوری طور پر نہیں ہوگی، اس میں کچھ وقت لگے گا لیکن کتنی دیر تک؟ کوئی نہیں جانتا'۔

یہ بھی پڑھیں: ایران، چین معاہدہ خطے میں بھارت، امریکا کے مشترکہ مفادات کو نقصان پہنچائے گا، ماہرین

ان کا کہنا تھا کہ 'مشترکہ کمیشن کے آج کے اجلاس کے بعد سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے عملی کام شروع ہوچکا ہے'۔

اسی معاہدے کو بچانے کے لیے ایک امریکی وفد بھی اسی شہر میں تھا تاہم ایران کے لیے خصوصی ایلچی رابرٹ میلے کی سربراہی میں ٹیم نے دوسری عالمی قوتوں کے ساتھ بات چیت میں حصہ نہیں لیا کیونکہ ایران نے کہا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات اس وقت تک نہیں کرے گا جب تک ٹرمپ کی جانب سے عائد پابندیاں اور صدر جو بائیڈن کے ذریعے نافذ کردہ تمام سخت پابندیاں ختم نہیں ہوجاتی ہیں۔

امریکا نے بھی کہا کہ ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان ہونے والی مذاکرات 'تعمیری' رہی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ 'ہم اسے ایک تعمیری اور یقینی طور پر خوش آئند اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں'۔

مزید پڑھیں: ایران نے پابندیوں کے مرحلہ وار خاتمے کی تجویز مسترد کردی

ایرانی سپریم لیڈر علی حسینی خامنہ ای نے کہا کہ ایران، امریکی پابندیوں کے خاتمے کی تصدیق کے بعد یورینیم کی افزودگی اور جدید سینٹری فیوجز کی تعیناتی کو فوری طور پر واپس لے گا تاہم وہ 'جلدی میں نہیں ہے' کیونکہ وہ مقامی پیداوار کے ذریعے پابندیوں کا اثر 'ختم' کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ویانا میں ایران کا وفد میں ملک کے مرکزی بینک، وزارت پیٹرولیم اور جوہری توانائی تنظیم کے نمائندوں پر مشتمل ہے کیونکہ پابندیاں بنیادی طور پر ایران کے مالیاتی شعبے اور تیل کی منتقلی کو نشانہ بناتی ہیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق ویانا مذاکرات میں 'ماہرین کی ملاقات کی شکل میں تکنیکی مذاکرات' بھی شامل ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ امریکی پابندیوں کو کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے اور ایران اس معاہدے کی مکمل تعمیل میں کیسے واپس آسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں