مقبوضہ کشمیر میں پولیس مقابلوں اور مظاہروں کی کوریج پر پابندی عائد

اپ ڈیٹ 09 اپريل 2021
مقبوضہ کشمیر پولیس کے مطابق صحافی پولیس مقابلوں کی براہ راست کوریج سے باز رہیں کیونکہ اسے فرائض میں مداخلت کے مترادف تصور کیا جائے گا— فائل فوٹو: انادولو ایجنسی
مقبوضہ کشمیر پولیس کے مطابق صحافی پولیس مقابلوں کی براہ راست کوریج سے باز رہیں کیونکہ اسے فرائض میں مداخلت کے مترادف تصور کیا جائے گا— فائل فوٹو: انادولو ایجنسی

مقبوضہ کشمیر میں پولیس نے صحافیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ خطے میں بھارت کی جابرانہ حکومت کی مخالفت اور احتجاج کرنے والوں سے مقابلوں کی براہ راست کوریج سے باز رہیں کیونکہ اسے ان کے فرائض میں مداخلت کے مترادف تصور کیا جائے گا۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر گرفت مزید مضبوط کرنے کے لیے 2019 میں اس کی آئینی خودمختاری کو ختم کردیا تھا جس کے بعد امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے بڑی تعداد میں پولیس اور فوج کو تعینات کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوجی نے انعام کیلئے 3 افراد کو قتل کیا، پولیس رپورٹ

بھارت نے خطے میں اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کے لیے سن 2019 میں خطے کی آئینی خودمختاری کو کالعدم قرار دینے کے بعد مقبوضہ خطے میں قیام امن کے لیے ہزاروں پولیس اور فوجیوں کو تعینات کردیا تھا۔

رواں ہفتے جاری کیے گئے حکمنامے میں مقبوضہ کشمیر کے پولیس کے سربراہ نے وادی میں مظاہرہ اور احتجاج کے ساتھ ساتھ مختلف پولیس کارروائیوں کی کوریج کرنے والوں کے لیے نئی ہدایات جاری کیں۔

پولیس کے سربراہ وجے کمار نے کہا کہ کوئی بھی ایسا مواد چلانے یا نشر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جس میں تشدد کو ہوا دی جائے، جس سے امن و امان خراب ہو یا جو ملک دشمن جذبات کو ہوا دے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ وادی میں ہونے والے پولیس مقابلوں یا کسی بھی ایسی صورتحال سے دور رہیں جو امن و امان کے لیے چیلنج ہو اور اس طرح کی چیزوں کی براہ راست کوریج نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں غیرملکی سفارت کاروں کے دورے پر مکمل ہڑتال

وجے کمار نے کہا کہ صحافیوں کی آزادی اظہار رائے چند پابندیوں سے مشروط ہے تاکہ دوسروں کی زندگیاں خطرے میں نہ پڑیں اور قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔

انہوں نے دوٹوک الفاظ میں صحافیوں کو خبردار کیا کہ وہ پولیس مقابلوں کے مقام پر پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی پیشہ ورانہ ذمے داری میں مداخلت نہ کریں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1989 میں شروع ہونے والی اس جدوجہد میں اب تک 50 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد دگنی ہے۔

ماضی میں پولیس یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پولیس مقابلوں کے مقام پر ٹیلی ویژن کیمروں اور صحافیوں کی موجودگی اکثر لوگوں کو سڑکوں پر نکلنے اور قانون ہاتھ میں لینے کی ترغیب دیتی ہے۔

لیکن صحافیوں نے اس ہدایات نامے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ نئے قواعد کا مقصد انہیں رپورٹنگ نہ کرنے پر مجبور کرنا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دفتر خارجہ

کشمیر پریس کلب نے ایک بیان میں کہا کہ آزادی صحافت جمہوریت کی بنیاد ہے اور اس پر ہونے والے کسی بھی حملے سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحافت کی آزادی اور صحافت پر اس طرح کا حملہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں