مردم شماری پر اعتراض: عدالت عظمیٰ کا ایم کیو ایم کی اپیل سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 11 اپريل 2021
ملک میں 2017 میں مردم شماری کی گئی تھی—فائل فوٹو: فہیم صدیقی/ وائٹ اسٹار
ملک میں 2017 میں مردم شماری کی گئی تھی—فائل فوٹو: فہیم صدیقی/ وائٹ اسٹار

سپریم کورٹ نے رجسٹرار کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی ایک درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا ہے جس میں پارٹی نے 2017 کی مردم شماری کے نتائج پر سوال اٹھائے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس مشیر عالم نے رجسٹرار کے دفتر کو حکم دیا کہ معاملہ وقت کے مطابق حل کریں۔

یہ بھی پڑھیں: 'کراچی ناجائز مردم شماری پر خاموش نہیں رہے گا'

خیال رہے کہ دفتر نے اس سے قبل درخواستوں کو اعتراضات کے ساتھ واپس کردیا تھا۔

گزشتہ برس 22 اکتوبر کو ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اور دیگر رہنماؤں، جن میں عامر خان، کنور نوید جمیل، وسیم اختر، فیصل سبزواری، حمید اور محمد جاوید حنیف خان شامل تھے، کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر صلاح الدین احمد کے ذریعے مشترکہ درخواست میں سندھ، خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد جیسے شہری علاقوں میں ایک مرتبہ پھر اور شفاف مردم شماری کے انعقاد کی استدعا کی گئی تھی۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ صلاح الدین احمد نے جسٹس مشیر عالم کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے قومی مردم شماری کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا تو اس پٹیشن کا مقصد مایوسی سے دوچار ہوگا اور سندھ کے عوام ’غیرمعمولی تعصب‘ کا شکار ہوں گے۔

مزید پڑھیں: کراچی کی مردم شماری پر جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سی سی آئی اور وفاقی حکومت کو 2017 کے مردم شماری کے حتمی نتائج کو شائع کرنے سے روکنا چاہیے۔

علاوہ ازیں درخواست میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے وفاقی حکومت کو حکم دیا جائے کہ مردم شماری کے پانچ فیصد اعداد و شمار کو کسی قابل اعتماد تیسرے فریق کے ذریعے آڈٹ کرایا جائے تاکہ سندھ میں مردم شماری کی شفافیت اور معیار کا اندازہ لگایا جاسکے۔

درخواست میں انہوں نے کہا تھا کہ ’اعداد و شمار ترتیب سے نہیں لیے جائیں‘۔

درخواست میں کہا گیا کہ منصفانہ اور درست مردم شماری کرانے میں حکام کی ناکامی سے عوام خصوصاً شہری سندھ کے لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: کابینہ نے 3 سال بعد مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے دی

انہوں نے کہا کہ 2017 کی مردم شماری کو قابل اعتراض بنا دیا گیا کیونکہ اس میں سندھ کے شہری علاقوں میں آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی کو ظاہر کیا گیا۔

1981 سے 1998 تک ملک کی اوسطا آبادی میں اضافے کی شرح 2.69 فیصد تھی لیکن اس کے مقابلے میں اسی عرصے کے دوران سندھ کے شہری علاقوں کی اوسط آبادی میں اضافے کی شرح 3.52 فیصد اور دیہی علاقوں میں 2.19 فیصد رہی۔

ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست میں کہا گیا کہ صوبائی مردم شماری کے مطابق کراچی کے آرام باغ اور صدر علاقوں میں ’آبادی میں غیرمعمولی کمی‘ ظاہر کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’کراچی کی آبادی کو دانستہ طور پر کم گنا گیا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں