ایران نے نطنز جوہری تنصیب پر حملے کو دہشت گردی قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 12 اپريل 2021
اس دہشت گردی کے اہداف کو ناکام بنانے کیلئے ایران جوہری ٹیکنالوجی میں سنجیدگی سے بہتری لائے گا، سربراہ ایرانی ایٹمی توانائی تنظیم - فوٹو:اے پی
اس دہشت گردی کے اہداف کو ناکام بنانے کیلئے ایران جوہری ٹیکنالوجی میں سنجیدگی سے بہتری لائے گا، سربراہ ایرانی ایٹمی توانائی تنظیم - فوٹو:اے پی

جہاں تہران اور عالمی قوتوں کے درمیان جوہری معاہدے پر بات چیت جاری ہے وہیں نطنز جوہری تنصیب پر بلیک آؤٹ کو ایران نے 'جوہری دہشت گردی' قرار دے دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق ایران کی جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی اس واقعے کا براہ راست کسی پر الزام عائد کرنے سے قاصر رہے۔

واضح رہے کہ اتوار کی صبح اس تنصیب پر پیش آنے والے واقعے کے بارے میں زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آسکیں جس کو ابتدا میں اس جگہ کو بجلی فراہم کرنے والے گرڈ کی وجہ سے بلیک آؤٹ قرار دیا گیا تھا۔

کئی اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے اداروں نے بتایا تھا کہ ایک سائبر حملے نے نطنز کو تاریک کردیا اور ایک ایسی سہولت کو نقصان پہنچایا جو نہایت حساس ہے۔

مزید پڑھیں: ایران کی عالمی معائنہ کاروں کو جوہری پلانٹ تک رسائی محدود کرنے کی دھمکی

ان رپورٹس میں کسی ذرائع کا ذکر نہیں تاہم یہ بات واضح رہے کہ اسرائیلی میڈیا کے ملک کی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار ہیں۔

اگر اسرائیل بلیک آؤٹ کا سبب ہے تو اس نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیا ہے جو پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں تنازع زدہ ہیں۔

سرکاری ٹی وی کے مطابق علی اکبر صالحی نے کہا کہ 'اس دہشت گردی کے اہداف کو ناکام بنانے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران ایک طرف جوہری ٹیکنالوجی میں سنجیدگی سے بہتری لائے گا اور دوسری طرف جابرانہ پابندیاں ختم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'اس مایوس کن اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران اس جوہری دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی اداروں اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی مداخلت کی ضرورت پر زور دیتا ہے'۔

اقوام متحدہ کی تہران کے جوہری پروگرام پر نظر رکھنے والی تنظیم 'آئی اے ای اے' نے پہلے کہا تھا کہ وہ نطنز کے واقعے کے بارے میں میڈیا رپورٹس سے واقف ہے اور اس کے بارے میں انہوں نے ایرانی عہدیداروں سے بات چیت کی ہے، تاہم ایجنسی نے اس کی تفصیل نہیں بتائی۔

یہ بھی پڑھیں: ایران نے پابندیوں کے مرحلہ وار خاتمے کی تجویز مسترد کردی

اتوار کی پیشرفت امریکا، اسرائیل کے اہم سیکیورٹی شراکت دار کی طرف سے ایٹمی معاہدے میں دوبارہ داخل ہونے کی کوششوں کو بھی پیچیدہ بناتی ہے جس کا مقصد تہران کے پروگرام کو محدود کرنا ہے تاکہ وہ جوہری ہتھیار حاصل نہ کرسکے۔

اس بلیک آؤٹ کی خبر سامنے آنے کے بعد امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اتوار کے روز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع بینی گانٹز سے بات چیت کے لیے اسرائیل پہنچے۔

سویلین جوہری پروگرام کے ترجمان بہروز کمال وندی نے اس سے قبل ایرانی سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ نطنز میں بجلی کی فراہمی پوری طرح سے متاثر ہوئی۔

سرکاری ٹی وی پر علی اکبر صالحی کے بیان میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس سہولت میں کیا ہوا ہے تاہم نطنز کو ماضی میں بھی تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

2010 میں دریافت ہونے والا اسٹکس نیٹ کمپیوٹر وائرس، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امریکا اور اسرائیل کا تخلیق کردہ تھا، نے تہران کے جوہری پروگرام کے بارے میں مغربی ممالک کے خدشات کے دوران نطنز میں ایرانی سینٹری فیوجز کو متاثر اور تباہ کردیا تھا۔

سینٹری فیوج جوہری مرکز کے ایسے سامان کو کہتے ہیں جس کی مدد سے یورینیم افزدوہ کی جاتی ہے۔

جولائی میں نطنز کے جدید ترین سینٹری فیوج اسمبلی پلانٹ میں ایک پراسرار دھماکا ہوا تھا جسے بعد میں حکام نے تخریب کاری قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایران: قانون سازوں کا عالمی جوہری ایجنسی کے ساتھ معاہدے پر صدر کےخلاف کارروائی کا مطالبہ

ایران اب اس پلانٹ کو قریب ایک پہاڑ کے اندر تعمیر کر رہا ہے۔

اسرائیل پر ایران میں اس حملے کے ساتھ ساتھ دیگر حملے کرنے کا بھی شبہ ہے، کیونکہ عالمی قوتیں تہران کے ساتھ اپنے جوہری معاہدے پر ویانا میں مذاکرات کرتی ہیں۔

ایران نے ایک سائنسدان کے قتل کا الزام بھی اسرائیل پر عائد کیا ہے جس نے دہائیوں قبل اس ملک کے فوجی جوہری پروگرام کا آغاز کیا تھا۔

اتوار کے روز اسرائیل کے متعدد ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا کہ سائبر حملے کی وجہ سے نطنز میں بلیک آؤٹ ہوا۔

پبلک براڈکاسٹر کان نے کہا کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا اور اس نے ایک دہائی قبل اسرائیل کی اسٹکس نیٹ حملوں کی مبینہ ذمہ داری کا حوالہ دیا۔

چینل 12 ٹی وی نے 'ماہرین' کے حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حملے سے اس سہولت کے تمام حصے بند ہوگئے ہیں۔

تاہم کسی بھی رپورٹ میں ذرائع یا اس کی وضاحت شامل نہیں ہے کہ ادارے اس نتیجے پر کیسے پہنچے۔

تل ابیب کے انسٹی ٹیوٹ برائے نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے ایک سینئر ممبر یوئیل گزانسکی نے اتوار کے روز ہونے والے بلیک آؤٹ کے بارے میں کہا کہ 'میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے، اگر یہ اتفاق نہیں تو یہ بہت بڑی بات ہے، کوئی یہ پیغام بھیجنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ہم ایران کی پیشرفت کو محدود کرسکتے ہیں اور ہمارے پاس ریڈ لائنز ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ پیغام بھی جاتا ہے کہ ایران کا انتہائی حساس جوہری تنصیب 'رسائی کے قابل' ہے۔

اسرائیل نے کسی بھی حملے کا دعوٰی نہیں کیا کیونکہ وہ عام طور پر اس کی خفیہ ایجنسی موساد یا خصوصی فوجی یونٹس کے ذریعے کیے جانے والے آپریشنز پر تبادلہ خیال نہیں کرتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں