تھانہ حملہ کیس میں عدالت نے ذوالفقار مرزا کو بری کردیا

اپ ڈیٹ 13 اپريل 2021
ذوالفقار مرزا کو استغاثہ کی جانب سے مقدمہ ثابت کرنے میں ناکامی کی وجہ سے تمام الزامات سے بری کردیا گیا، رپورٹ - فائل فوٹو:ڈان
ذوالفقار مرزا کو استغاثہ کی جانب سے مقدمہ ثابت کرنے میں ناکامی کی وجہ سے تمام الزامات سے بری کردیا گیا، رپورٹ - فائل فوٹو:ڈان

کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 2015 میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر کے خلاف شکایت درج نہ کرنے پر سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا کی جانب سے بدین میں پولیس اسٹیشن میں دھاوا بولنے اور پولیس اہلکاروں سے بدسلوکی اور دھمکیاں دینے کے مقدمے میں بری کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما کو استغاثہ کی جانب سے مقدمہ ثابت کرنے میں ناکامی کی وجہ سے تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔

اے ٹی سی -ون نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی درخواست پر اپنا فیصلہ سنایا جنہوں نے موجودہ کیس میں بری ہونے کی درخواست کی تھی۔

ہفتے کے روز دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد جج نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ذوالفقار مرزا سے جیل میں خیریت معلوم کرنے کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوئی، آفاق احمد

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے فیصلے میں کہا تھا کہ استغاثہ درخواست گزار کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

عدالت نے درخواست منظور کی اور مقدمے میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو بری کردیا۔

پراسیکیوٹر کے مطابق ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ہتھیاروں سے لیس ہوکر اپنے 40 سے زائد ساتھیوں کے ہمراہ 3 مئی 2015 کو بدین پولیس اسٹیشن میں دھاوا بولا تھا جہاں انہوں نے مبینہ طور پر پولیس سے آصف زرداری، فریال تالپور، اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس غلام حیدر جمالی اور ایس ایس پی بدین کے خلاف شکایت درج کرنے کو کہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او بدین عبد القادر سمون نے ذوالفقار مرزا کو شکایت درج کروانے کے لیے اعلیٰ افسران سے اجازت لینے کا کہا تو ڈاکٹر ذوالفقار مرزا غصے میں آگئے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے پولیس عہدیداروں کے ساتھ بدسلوکی کی ایس ایچ او کا موبائل فون چھین لیا فرنیچر توڑا اور وہاں کے عہدیداروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔

اپنے دلائل میں خصوصی استغاثہ مبشر مرزا نے کہا کہ ملزم ذوالفقار مرزا نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا تھا، ریاست کے خلاف بغاوت کی تھی اور عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ استغاثہ کے گواہوں نے اپنے بیانات میں ملزمان کے جرم میں ملوث ہونے کا کہا ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ پر کافی ثبوت موجود ہیں اور انہوں نے جج سے استدعا کی کہ میرٹ نہ ہونے کی بنا پر بریت کی درخواست خارج کردی جائے۔

پراسیکیوٹر نے مزید بتایا کہ اس مقدمے میں تقریبا 40 افراد کو نامزد کیا گیا تھا اور مقدمے کی کارروائی کے دوران تین ملزم ہلاک ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ذوالفقار مرزا کو مزید ایک دن گرفتار نہ کرنے کا حکم

وکیل دفاع اشرف سموں نے کہا کہ ان کے مؤکل کے خلاف استغاثہ کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود نہیں ہیں کیونکہ وہ بے قصور ہیں اور انہوں نے انسداد دہشت گردی قوانین، وغیرہ کے دائرہ کار میں آکر کوئی جرم نہیں کیا تھا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی درخواست منظور کرے اور کیس میں انہیں بری کرے۔

واضح رہے کہ ریاست مدعیت میں بدین پولیس اسٹیشن میں قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

عدالت نے 2015 میں بدین میں مسلح فسادات، تشدد اور دکانوں پر لوٹ مار سے متعلق دو دیگر مقدمات میں بھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی بریت کی درخواستوں کے بارے میں فیصلے کا 3 مئی کو اعلان کرنا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں