غیر ملکی مسافروں کو قرنطینہ میں 'حقیقی مشکلات' کا سامنا ہے، برطانوی ججز

اپ ڈیٹ 23 اپريل 2021
عدالت میں یہ درخواست پاکستانی نژاد برطانوی خاندان کی جانب سے دائر کی گئی ہے — فائل فوٹو / رائٹرز
عدالت میں یہ درخواست پاکستانی نژاد برطانوی خاندان کی جانب سے دائر کی گئی ہے — فائل فوٹو / رائٹرز

لندن ہائی کورٹ کے دو ججز نے عبوری ریلیف کے لیے دائر درخواست پر ردعمل میں برطانوی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ہوٹل میں قرنطینہ کی سروس کو بہتر کرے۔

عدالت میں یہ درخواست پاکستانی نژاد برطانوی خاندان کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بیرسٹر زہاب جمالی نے رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان سے لوٹنے والے پانچ رکنی خاندان کی جانب سے درخواست دائر کی تھی، اس خاندان کو پاکستان کا نام 'ریڈ لسٹ' میں شامل ہونے کی وجہ سے ہوٹل میں لازمی 10 روز قرنطینہ کرنا تھا۔

زہاب جمالی نے کہا کہ خاندان کو ہولی ڈے اِن ایکسپریس ٹی فور ہیتھرو میں سور کا گوشت پیش کیا جاتا، کھانا وقت پر نہیں دیا جاتا اور نہ ہی کمرے میں تولیے اور بستر کی چادریں تبدیل کی جاتی تھیں۔

پاکستان سے واپس جانے والے مسافر ہوٹل میں قرنطینہ کے لیے ایک ہزار 750 پاؤنڈز فی کمرا ادا کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے برطانیہ جانے والے مسافروں کے قرنطینہ پر کتنا خرچ آئے گا؟

جسٹس لانگ ڈی بی ای نے 16 اپریل کو سیکریٹری برائے صحت و سماجی نگہداشت میٹ ہینکاک کو حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ فریق کو چاہیے کہ وہ 'بڑے کمروں کی فراہمی، باقاعدگی سے آؤٹ دور ورزش، وقت پر مناسب کھانے کی فراہمی اور صاف چادروں اور تولیوں کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں'۔

19 اپریل کو وکیل نے جب عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نے حکم کی تعمیل نہیں کی تو جسٹس ہینشو نے ریمارکس دیے کہ 'میں مطمئن نہیں ہوں کہ شکایت کنندہ کی قرنطینہ میں حقیقی مشکلات کے حوالے سے جسٹس لانگ کے حکم کی مکمل تعمیل کی گئی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کا جواز پیش کرنا ممکن نہیں ہے جہاں فیملی کو ناکافی کھانا اور بیٹھنے کے لیے ناکافی کرسیاں دی جارہی ہوں۔

جج نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ بچوں کی صحت اور نشوونما کے لیے اقدامات اٹھائے اور خاندان کی بطور مسلمان کھانے پینے کی ضروریات کا خیال رکھے۔

زہاب جمالی نے کہا کہ ہوٹل قرنطینہ کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں اور خراب سروس فراہم کرنا ان کے لیے 'ناقابل برداشت' ہے۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ 'ہوٹل کے قرنطینہ میں موجود خاندانوں میں سے کئی زیادہ نہیں کماتے اور کچھ فائدے میں ہیں، یعنی انہیں ہوٹل کے اخراجات حکومت کو 12 ماہ کی اقساط میں واپس کرنے ہوں گے'۔

مزید پڑھیں: برطانیہ میں پاکستانی مسافروں کے ساتھ امتیازی سلوک پر شیریں مزاری کا اظہارِ برہمی

انہوں نے دو افراد پر مشتمل ایک اور خاندان کے متعلق بتایا جن کے بینک اکاؤنٹس میں صرف 50 اور 10 پاؤنڈ رہ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ خاندان اقساط بھی کیسے ادا کرے گا؟'

پاکستان سے واپس جانے والے عاصم بلال نے، جو خاندان کے ہمراہ مرکیور لندن ہیتھرو ہوٹل میں قرنطینہ میں ہیں، ڈان کو بتایا کہ ان کے اہلخانہ کی پانی کی بوتل کی درخواست ہوٹل کے عملے نے رد کردی۔

دو بچوں کے والد نے کہا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو گھنٹوں تک کھانا نہیں دیا جاتا اور ہوٹل کو درخواست بے سود ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ برطانوی حکومت نے ملک میں وائرس کا مزید پھیلاؤ روکنے کے لیے پاکستان کو 9 اپریل کو ممالک کی 'ریڈ لسٹ' میں شامل کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں