لگتا ہے کہ فوج 'سب سے بڑا قبضہ مافیا' بن گئی ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

اپ ڈیٹ 29 اپريل 2021
چیف جسٹس قاسم خان 3 شہریوں کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کررہے تھے—فائل فوٹو: وکیمیڈیا کامنز
چیف جسٹس قاسم خان 3 شہریوں کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کررہے تھے—فائل فوٹو: وکیمیڈیا کامنز

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے زمینوں پر 'غیر قانونی' قبضوں میں ملوث ہونے پر ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ فوج 'سب سے بڑا قبضہ مافیا' بن گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس قاسم خان 3 شہریوں کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کررہے تھے جس میں انہوں نے ڈی ایچ اے کے خلاف حکم جاری کرنے کی استدعا کی تھی کہ وہ متروکہ وقف املاک بورڈ سے لیز پر حاصل کی گئی ان کی اراضی کے جائز قبضے میں مداخلت نہ کریں۔

چیف جسٹس قاسم خان نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ فوج نے ہائی کورٹ کی بھی 50 کنال کی اراضی پر قبضہ کررکھا ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: ڈی ایچ اے کا متروکہ زمین کا دعویٰ کرنے پر چیف جسٹس کا اظہار برہمی

انہوں نے کہا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت دیں گے کہ اس سلسلے میں آرمی چیف کو خط لکھا جائے، ان کا کہنا تھا کہ بار بھی اس معاملے سے لاتعلق رہی۔

ڈی ایچ اے کے وکیل الطاف الرحمٰن خان نے ہائی کورٹ کی زمین پر قبضے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا جس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ اس حقیقت کی تصدیق کے لیے کور کمانڈر لاہور کو طلب کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فوج کی وردی خدمت کے لیے ہے، بادشاہ کی طرح حکمرانی کرنے کے لیے نہیں ہے۔

جسٹس قاسم خان نے کہا کہ انہوں نے فوج کے خلاف کچھ غلط نہیں کہا ہے اور اللہ تعالی نے ان سے سچ کہلوایا ہے، جس طرح فوج لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کررہی ہے یہ زمینوں پر قبضے کے سوا کچھ نہیں۔

مزید پڑھیں: ڈی ایچ اے کے خلاف قیوم آباد کی طویل جنگ

درخواست گزاروں کے وکیل ایڈووکیٹ آصف عمران اعوان نے کہا کہ پٹیشن پر کوئی جواب جمع نہیں کروایا گیا کیوں کہ فری/ڈی ایچ اے فوج سے تعلق رکھتی ہے۔

چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں ان کے 11 سالہ دور میں کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ جواب داخل کرنے سے انکار کرے۔

انہوں نے ڈی ایچ اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ 'کیا ڈی ایچ اے کے لیے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں؟'

وکیل نے بتایا کہ ڈی ایچ اے میں ریٹائرڈ افسران کام کرتے ہیں تاہم ڈی ایچ کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر وحید گل ستی حاضر سروس افسر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے سٹی کے باعث کسان اپنی زرعی اراضی سے محروم

چیف جسٹس نے ڈی ایچ اے کے وکیل کو ہدایت کی کہ ایڈمنسٹریٹریٹر کو فوری طور پر عدالت میں پیش ہونے کا کہا جائے ساتھ ہی انہوں نے صوبائی لا افسر سے لاہور پولیس کے سربراہ کی عدالت میں پیشی یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سی سی پی او کو کوئی خوف محسوس ہو تو ان سے کہیں کہ آئی جی کو بھیجیں، بعدازاں وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ ہوئی تو سی سی پی او لاہور غلام محمد ڈوگر عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب ڈی ایچ اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بریگیڈیئر وحید ستی سپریم کورٹ میں پیشی کے لیے اسلام آباد میں ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کی کہ ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر کو جمعرات کے روز مکمل ریکارڈ کے ہمراہ عدالت میں پیش کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے والوں کا بس چلے تو سمندر میں شہر بنا لیں، جسٹس گلزار

انہوں نے سی سی پی او سے کہا کہ اگر وہ ڈی ایچ اے کے غیر قانونی قبضے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتے تو بہتر ہے کہ یہ عہدہ چھوڑ دیں، انہوں نے پولیس کو حکم دیا کہ اگر ڈی ایچ اے کے خلاف کوئی درخواست موصول ہو تو اس پر مقدمہ درج کیا جائے۔

جسٹس قاسم خان نے کہا کہ فوج کے پاس اپنے افسران کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد پرکشش ویلفیئر پلان ہوتا ہے جو دیگر اداروں مثلاً پولیس اور عدلیہ کے پاس نہیں۔

انہوں نے دریافت کیا کہ کیا صرف فوج قربانیاں دیتی ہے؟ دیگر ادارے مثلاً پولیس، وکلا اور ججز قربانیاں نہیں دیتے؟

تبصرے (1) بند ہیں

AHMED BAJWA Apr 29, 2021 01:35pm
Well Said CJ Sahib.