وزیر اعظم نے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے الزامات مسترد کردیے، سینئر صحافی

اپ ڈیٹ 29 اپريل 2021
وزیر اعظم نے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے الزامات کو مسترد کردیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیر اعظم نے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے الزامات کو مسترد کردیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بشیر میمن کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے خواجہ آصف کے علاوہ کسی کے خلاف تحقیقات کا نہیں کہا۔

وزیراعظم نے آج سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز سے ملاقات کی جس میں وزیراعظم نے بشیر میمن کے الزامات کو مسترد کیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بنانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، سابق ڈی جی ایف آئی اے

وزیراعظم سے ملاقات میں مختلف چینلز اور اداروں کے اہم اور سینئر اینکر پرسنز موجود تھے جس میں ملک کو درپیش مختلف مسائل اور امور کے ساتھ ساتھ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے الزامات بھی زیر بحث آئے۔

اس حوالے سے نجی ٹی وی ‘جیو نیوز’ سے منسلک سینئر صحافی شہزاد اقبال نے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ ملاقات کے دوران وزیراعظم نے اکثر باتوں کو خفیہ رکھنے اور ریکارڈ پر نہ لانے کی درخواست کی لیکن بشیر میمن کے معاملے پر انہوں نے کھل کر بات کی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے بشیر میمن کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو میری یا حکومت کی جانب سے کبھی یہ ہدایات نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ انہوں نے کبھی بھی خاتون اول کی تصویر کے معاملے پر مریم نواز کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بنانے کا نہیں کہا، خواجہ آصف کے سوا مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کے کسی اور رہنما کے خلاف تحقیقات کا نہیں کہا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن احتجاجاً ملازمت سے مستعفی

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ خواجہ آصف کے حوالے سے بشیر میمن کو یہ بات کہی گئی تھی کہ وہ اس بات کی تحقیقات کریں کہ کیسے ایک شخص غیر ملکی اقامہ رکھتا ہے، تنخواہ لیتا ہے اور اس کے بعد بھی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے عہدے پر رہتا ہے اور یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے، اس لیے خواجہ آصف کے خلاف تحقیقات کا بشیر میمن کو کہا تھا۔

سینئر صحافی نے بتایا کہ وزیراعظم نے کہا کہ یہ بات صرف بشیر میمن کو نہیں کہی گئی تھی بلکہ اس پر باقاعدہ کابینہ میں بحث ہوئی تھی جس کے بعد سابق ڈی جی ایف آئی اے کو یہ بات کہی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں بشیر میمن کو کسی قسم کی ہدایات نہ وزیر اعظم نے دیں اور نہ ہی حکومت نے دی ہیں جبکہ بشیر میمن کو پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو گرفتار یا ان کے خلاف تحقیقات کرنے کا بھی نہیں کہا گیا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ دونوں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے وزیر اعظم اور حکومت پر دباؤ ڈال کر مخالفین کے خلاف مقدمات بنوانے سمیت سنگین الزامات عائد کیے تھے۔

مزید پڑھیں: ‘خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا’

انہوں نے ‘جیو نیوز’ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان، ان کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتے۔

انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباؤ ڈالا جاتا تھا۔

بشیر میمن نے کہا تھا کہ شہباز شریف کے بیٹے اور کیپٹن (ر) صفدر سمیت دیگر مسلم لیگ (ن) رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے لیے کہا گیا جبکہ مریم نواز کے حوالے سے تین مختلف اوقات میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور، ایف بی آر کی تمام کارروائی کالعدم

انہوں نے بتایا تھا کہ جب سوشل میڈیا پر خاتون اول کی تصویر سامنے آئی اور جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل میں پریس کانفرنس کے معاملے پر مریم نواز کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کرنے کا بہت دباؤ تھا اس کے علاوہ شہباز شریف، مریم اورنگزیب، حمزہ شہباز، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، پیپلزپارٹی سے خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر سمیت جو بھی حکومت کے خلاف بات کرتا تھا، اس کو پکڑنے اور اس کے خلاف انکوائری کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں