بائیڈن کا ٹرمپ کی سرحدی پالیسی کے باعث بِچھڑے خاندانوں کو ملانے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 04 مئ 2021
امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر الگ ہونے والے چار تارکین وطن خاندانوں کو اس ہفتے دوبارہ ملایا جائے گا— فوٹو: اے پی
امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر الگ ہونے والے چار تارکین وطن خاندانوں کو اس ہفتے دوبارہ ملایا جائے گا— فوٹو: اے پی

امریکی صدر بائیڈن نے ٹرمپ انتظامیہ کی ایک اور پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے اور ٹرمپ کے دور میں امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر الگ ہونے والے چار تارکین وطن خاندانوں کو اس ہفتے دوبارہ ملایا جائے گا۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق اس اقدام کو صدر بائیڈن کی جانب سے کیے گئے وعدے کی تکمیل سے تعبیر کیا جا رہا ہے جہاں انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکی خاتون اول بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی ظالمانہ پالیسی پر خاموش نہ رہ سکیں

بائیڈن سے بنی ٹاسک فورس کے سربراہ ، مشیل برین نے اتوار کے روز رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کے ذریعے ان خاندانوں کو امریکا میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔

مشیل برین نے کہا کہ اس ہفتے میں ہم جن معاملات کے بارے میں بارے میں بات کر رہے ہیں، ان میں بچے امریکا میں ہیں اور ان کے والدین ان سے ملنے کے لیے آںے والے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی غور کر رہی ہے کہ آیا انہیں طویل المیعاد امیگریشن کا درجہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی علیحدگی پالیسی پر مقدمہ کرنے والے امریکن سول لبرٹیز یونین کے اٹارنی لی جریلنٹ نے کہا کہ ان کی تنظیم کو یہ نہیں معلوم تھا کہ کتنے بچے والدین سے جدا ہوئے ہیں لیکن یہ تعداد ممکنہ طور پر ایک ہزار سے زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں آنے والی بڑی تبدیلیاں کیا ہوں گی؟

بائیڈن انتظامیہ کو حالیہ مہینوں میں سرحد عبور کرنے والے تارکین وطن کی بڑی تعداد کا سامنا ہے جس میں نابالغ اور کم عمر بچوں سمیت اہلخانہ شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق وسطی امریکا سے ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ امیگریشن سے متعلق سخت گیر موقف اپنانے کے لیے شہرت رکھتی تھی اور انہوں نے 2018 میں غیرقانونی طریقے سے سرحد پار کرنے والوں کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں والدین بڑے پیمانے پر اپنے بچوں سے الگ ہو گئے۔

البتہ عالمی سطح پر تنقید کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اس سال پالیسی کو بدل دیا تھا لیکن وکلا اور نگران اداروں کے مطابق علیحدگی کا سلسلہ پالیسی سے پہلے ہی شروع چکا تھا اور اس کے بعد بھی جاری رہا، انہوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ معاملات میں والدین کو جلاوطن کردیا گیا اور بچے دوسرے رشتہ داروں یا کفیلوں کے ساتھ امریکا میں ہی رہے۔

بائیڈن نے ٹرمپ کی اہلخانہ سے علیحدگی کی اسکیم کو انسانی المیہ قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے مسلمانوں کو تکلیف ہوئی، سروے

ڈی ایچ ایس کے سیکریٹری الیگژینڈرو میورکاس نے خوش قسمت خاندانوں کے حوالے سے تفصیلات بتانے سے تو انکار کردیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک کا تعلق ہنڈورس اور دوسرے کا میکسیکو سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دونوں خاندان اپنے بچوں سے 2017 سے الگ ہیں اور دیگر خاندانوں کی طرح یہ بھی اپنے بچوں سے مل سکیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں